Inquilab Logo

کیا اعلیٰ ذوقی گم ہوگئی ہے؟

Updated: March 01, 2021, 9:36 AM IST | Rehana Khatib

دور حاضرمیں جبکہ حالات غیر معمولی حد تک تبدیل ہوگئے ہیں، انسانی رجحانات میں بھی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ان میں جو مثبت ہیں وہ لائق ستائش ہیں مگر ہمیں ٹھہر کر سوچنا چاہئے کہ بعض دیگر تبدیلیاں، جو مثبت نہیں ہیں، وہ کہاں تک درست ہیں

Family - Pic : INN
فیملی ۔ تصویر : آئی این این

اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے جس نے یہ خوبصورت دنیا بنائی۔ یہ سورج، چاند، ستارے، کہکشاں، آسمان اور زمین۔ پھر زمین پر بلند و بالا پہاڑ، بل کھاتی ندیاں، دریا اور سمندر، طرح طرح کے نباتات اور حیوانات.... اور ان تمام خوبصورت چیزوں کے بعد رب العالمین نے انسان کو بنایا جسے اپنی گو نا گوں خصوصیات کی بنا پر اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔
 دنیا تو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت بنائی ہی تھی مگر روز ازل سے انسان بھی اس کو سجانے سنوارنے کی جدوجہد کرتا رہا اور کامیاب ہوا۔ غاروں میں رہنے والا انسان خوبصورت گھروں میں رہنے لگا۔ پتوں سے بدن چھپانے کے بجائے کپڑا بننے اور پہننے لگا۔ آگ اور پہیے کی ایجاد نے انسانی زندگی کو پُر آسائش بنا دیا۔ کروڑوں سال ہوگئے دُنیا کی تخلیق کو مگر خوبصورتی کی جانب یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
 وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر چیز بدل رہی ہے۔ تبدیلیوں کو تو قبول کرنا ہے کیونکہ فقط تغیر کو ثبات ہے زمانے میں، مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ بہت سی تبدیلیاں منفی سمت میں ہو رہی ہیں۔ پہلے انسان خوبصورت چیزوں کا شیدائی تھا مگر آج بہت سوں کا رجحان عجب ہو گیا ہے۔ اس کی مثال ہم لباس سے لے سکتے ہیں۔ جب انسان نے لباس پہننا شروع کیا تو وہ اسے خوبصورت اور جاذب نظر بنانے لگا۔ خوبصورت پھول اور پتّوں کے ڈیزائن والے کپڑے اس کو بھانے لگے.... مگر آج کے کپڑوں پر بدصورت بلکہ بھیانک ڈیزائن نظر آتے ہیں۔ آئرن مین، ہی مین، بلیک اور اسپائڈر مین وغیرہ کی تصویروں سے ’’مزین‘‘ لباس پہلی پسند بن گئے ہیں۔ حتیٰ کہ دانت نکالے ہوئے خونخوار درندوں کی تصاویر بھی نظر آتی ہیں۔ پہلے جن تصویروں سے بچوں کو ڈرایا جاتا تھا وہی تصویریں ان کے لباس، اسکول بیگ اور ٹفن پر نظر آتی ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بچے انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ خوبصورت کھلونوں سے بہلنے والے بچے آج ڈائناسور سے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سالگرہ کے کیک بھی ایسی ہی بھیانک شکلوں کے بنائے جاتے ہیں۔ بعض سنجیدہ فکر لوگ بھی اس رجحان سے محفوظ نہیں ہیں۔ پختہ عمر کے اور اچھے اچھے عہدوں پر فائز لوگ بھی ریشمی، شوخ رنگ اور بھوتیا ڈیزائن کے کپڑے پہننے میں ذرا تکلف نہیں کرتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ اس طرح کا لباس آفس وغیرہ میں نہیں پہنتے مگر گھر اور نجی تقریبات میں اپنا شوق پورا کرہی لیتے ہیں۔ ایک باوقار شخص کو ہم نے دیکھا کہ شوخ رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر دو بڑے بڑے بندر آمنے سامنے کھڑے تھے۔ بے شک بندر اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ایک دلچسپ مخلوق ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اسے اپنے پیٹ پر سجاتے پھریں۔
 رنگ اور ڈیزائن کے بعد بات آتی ہے پھٹے کپڑوں کی۔ پھٹے ہوئے کپڑے غریبی کی نشانی تھے۔ اگر اتفاق سے بھی پھٹ جاتے تو کسی کے سامنے آنے میں شرم محسوس ہوتی تھی۔ پھٹے کپڑوں میں پیوند لگائے جاتے تھے اور کوشش کی جاتی تھی کہ ایسی مہارت کے ساتھ لگایا جائے کہ پیوند نہ معلوم ہو بلکہ اصل کپڑے کا حصہ نظر آئے۔ مگر، اب پھٹے ہوئے بلکہ پھاڑے ہوئے کپڑے فیشن ہیں اور شوق سے پہنے جاتے ہیں۔ ان کے بھی بڑے بڑے برانڈ ہیں جو کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ کیا لڑکیاں اور کیا لڑکے سبھی بڑے فخر سے پھٹی ہوئی جینس پہنے گھومتے ہیں۔ جامہ زیبی کے تو معنی ہی بدل گئے ہیں۔ دیکھنے والے بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ پسندیدگی ظاہر نہیں کریں گے تو ماڈرن کیسے کہلائیں گے؟
 رفتہ رفتہ کھانے پینے کے آداب بھی بدل گئے۔ پہلے ماں باپ بچپن ہی سے بچوں کو تمیز سے کھانا سکھاتے تھے۔ نوالے چھوٹے ہوں، منہ ایک حد سے زیادہ نہ کھولا جائے اور آواز تو آنی ہی نہیں چاہئے۔ کھانے پینے کے آداب میں ایسی کئی چیزیں شامل تھیں۔ ماڈرن غذائی اشیاء کے لئے بڑا منہ پھاڑنا ضروری ہے جیسے برگر۔ اسے کس طرح کھایا جاتا ہے اس کا تصور ہی کافی ہے۔ اس میں موجود چیزوں کے ادھر اُدھر گرنے کی وجہ سے صفائی کا بھی جنازہ نکل جاتا ہے۔ سلیقہ تو قصۂ پارینہ ہے۔
 انسانی صفات میں جمالیاتی حس یعنی خوبصورتی کو سراہنے اور پسند کرنے کا جذبہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اچھی شکلیں، اچھی آواز اور خوبصورت رنگ انسانوں کو لبھاتے ہیں.... حسنِ یوسفؑ نے عورتوں کو انگلیاں کاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لحن ِ داؤدی سے نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی مسحور ہوجاتے تھے۔ حضرت بلالؓ کو ان کی خوبصورت آواز کی وجہ سے حضورؐ نے اذان کی ذمہ داری سونپی تھی۔ یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے قطع نظر، مونالیزا کی دلکش مسکراہٹ کو آج بھی لوگ سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔ اچھی اور بامعنی شاعری اور سریلی موسیقی کو بھی اس میں شامل کیجئے جو انسان کو دکھوں سے دور کر دیتی ہے۔ ماں کی سریلی لوری کو بھی یاد کیجئے جسے سن کر بچے اتنا سکون محسوس کرتے کہ نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ کیا آج کی بے ہنگم موسیقی یہ کام کرتی ہے۔ اسے سن کر بچے سونے نہیں رونے لگتے ہیں۔
 اللہ نہ کرے کہ ترقی کا سفر کہیں رکے اور وہ رکنے والا نہیں ہے۔ تبدیلیاں تو آتی رہیں گی مگر کیا انسان کی فطرت بھی بدل جائے گی؟ جمالیاتی حس کے معنی بدل جائیں گے یا یہ سرے سے ختم ہو جائے گی؟ ان سوالوں پر غور کرنا ہم خواتین کیلئے خاص طور پر ضروری ہے کیونکہ ہم ہی بچوں کی پرورش اور تربیت کرتی ہیں اور ہمارا حسن تربیت ہی اُنہیں سلجھے اور سنورے ہوئے انسان میں تبدیل ہونے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK