Inquilab Logo

کشمیری طالبہ جو قوت گویائی و سماعت سے محروم بچوں کی زبان بن گئی

Updated: November 01, 2021, 11:45 AM IST | Agency | Srinagar

قوت گویائی و سماعت سے محروم اپنی والدہ کے کرب و درد سے متاثر ہو کر ایک۱۸؍ سالہ کشمیری طالبہ نے اسی نوعیت کے معذور طلبہ کی کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج (اشاروں کی زبان) مہارت سے تربیت دینا شروع کی ہے۔

student who became the language of deaf and dumb children.Picture:INN
طالبہ جو قوت گویائی و سماعت سے محروم بچوں کی زبان بن گئی۔ تصویر: آئی این این

قوت گویائی و سماعت سے محروم اپنی والدہ کے کرب و درد سے متاثر ہو کر ایک۱۸؍ سالہ کشمیری طالبہ نے اسی نوعیت کے معذور طلبہ کی کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج (اشاروں کی زبان) مہارت سے تربیت دینا شروع کی ہے۔ سری نگر کے نوگام علاقے سے تعلق رکھنے والی بارہویں جماعت کی طالبہ ارویٰ امتیاز جس کی والدہ قوت گویائی و سماعت سے محروم ہیں، پہلی کشمیری لڑکی ہے جو قوت گویائی و سماعت سے محروم قریب ۳۰۰؍ طلبہ کو کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج مہارت کی وساطت سے تربیت دے رہی ہے۔  ارویٰ امتیاز نے سائن لنگویج سیکھ کر یہ کام کرنے کے محرکات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایجنسی کو بتایا: `سائن لنگویج سیکھنے کی ضرورت مجھے اس وقت شدت سے محسوس ہوئی جب میں اپنی والدہ ریحانہ امتیاز جو قوت گویائی و سماعت سے محروم ہیں، کے ساتھ اچھی طرح سے بات چیت کرنے میں ناکام ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میری والدہ بھی بسا اوقات بہت پریشان ہو جاتی تھیں جب وہ اپنی بات مجھے سمجھانے میں ناکام ہو جاتی تھیں۔ ارویٰ نے کہا کہ میں نے سائن لنگویج کا ہنر اپنے قریبی رشتہ داروں سے سیکھا۔  `میرے قریبی رشتہ دار محمد سلیم اور گلشن درابو گزشتہ ۱۵؍ برسوں سے نوگام میں ہی آل جموں و کشمیر سپورٹس ایسوسی ایشن فار ڈیف چلڈرن کے نام کے تحت ایک کلب چلا رہے ہیں، میں ان کے پاس ہی گئی اور سائن لنگویج سیکھی۔میں نے اس لنگویج میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس کافی وقت گزارا۔ ارویٰ امتیازنے بتایاکہ گلشن درابو اس کلب کی جنرل سکریٹری ہیں اور حکومت اس کلب کی مالی معانت کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ `میں ان  کے ساتھ (محمد سلیم اور گلشن درابو) اسٹیڈیم جایا کرتی تھی جہاں میں ان کو طلبہ کے ساتھ سائن لنگویج کی وساطت سے محو گفتگو ہوتے ہوئے دیکھتی تھی۔ان کا کہنا تھا بعض اوقات مجھے یہ دیکھتے ہوئے کافی تکلیف ہوتی تھی کہ یہ خوبصوت بچے بول نہیں پا رہے ہیں۔ارویٰ کے بقول میں نے انتہائی انہماک کے ساتھ ان بچوں کے حرکات وسکنات اور جذبات کا مشاہدہ کیا تاکہ میں سائن لنگویج کی وساطت سے ان کی زبان بن سکوں۔انہوں نے کہا کہ  `میں نے پہلے سائن لنگویج اپنی والدہ کو سمجھنے کے لئے سیکھی تاکہ میں ان کے جذبات و خیالات و احساسات کی زبان بن سکوں لیکن بعد میں ان لاچار بچوں کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ان کا کہنا تھا: `ہمارے گھر کا کوئی بھی فرد میری والدہ سے بات نہیں کر سکتا تھا ۔ اس ہونہار طالبہ نے کہا کہ میں خود بھی اپنی ماں کی بات نہ سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی وہ میری بات سمجھتی تھی جس سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔انہوں نے کہا: `آج میں بہت ہی خوش ہوں کہ میری والدہ میری بات سمجھ پاتی ہے میں ان کی بات سمجھ سکتی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ رفتہ رفتہ اس ہنر میں میری دلچسپی بڑھتی گئی اور اب میں سائن لنگویج اسکل کورس کرنا چاہتی ہوں۔
 ارویٰ امتیاز دلی یا بنگلور میں کسی قوت گویائی و سماعت سے محروم افراد کے اسکول سے سائن لنگویج میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ارویٰ قوت گویائی و سماعت سے محروم کھلاڑیوں کے ٹیموں کے ہمراہ جموں، دلی اور چنئی بھی گئی ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کئی اعزازات سے نوازا بھی گیا ہے۔ ان کا کہنا ہےمجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ان بچوں کی رضاکارانہ طور پر خدمت کر رہی ہوں۔ ارویٰ نے کہا کہ قوت گویائی و سماعت سے محروم بچوں کے کئی والدین سائن لنگویج سیکھنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہ آسانی بات کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں خاص کر معذور افراد کی  خدمت ہے جس کے  لئے میں اللہ تعالیٰ کی مشکور ہوں کہ مجھے یہ خدمت کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ارویٰ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس نوعیت کے معذور بچوں کو مزید سہولیات فراہم کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK