Inquilab Logo

لاک ڈائون منفی رویوں،انانیت اور مفاد پرستی پر بھی نافذ ہونا چاہئے

Updated: April 06, 2020, 6:21 PM IST | Saeeda Mazhar Saleem

موجودہ صورتحال میں ہم خواتین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیوں کہ ہم خاتون خانہ ہیں اور پورے گھر کو سنبھالنے کا کام کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گھروںکی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ ذہنوں کی صفائی ، رویوں کی بہتری اور ایک دوسرے کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرتوں کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھالیں تو وائرس کیا بڑے سے بڑا شیطان بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا

Lockdown - Pic : PTI
لاک ڈاؤن ۔ تصویر : پی ٹی آئی

اخبار کی سرخیوں نے ملک کے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا کہ ایک چھوٹے سے وائرس نے فلاں ملک میں اچانک حملہ کر دیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے اور کچھ متاثر پائے گئے۔ بڑے بڑے سائنسدانوں اور معالجین نے اس کے سدباب کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ادویات اور انجکشن کی ایجاد کے نئے نئے طریقے تلاش کرنے لگے لیکن `مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق یہ وائرس اس تیزی سے اسے ہاتھ پاؤں پھیلانے لگا کہ حالات پر قابو پانا مشکل ہونے لگا۔ اموات کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی۔ ہر ملک ان اموات کے سبب پریشان ہے۔
 ایک چھوٹے سے وائرس نے دنیا کے طاقتور اور ترقی یافتہ ملکوں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا۔ یہ طاقتور اور ملک ترقی کے نشے میں زمین کے خدا بن بیٹھے تھے، وہ سمجھنے لگے تھے کہ دنیا ان کی مٹھی میں ہے لیکن اب یہ دنیا مٹھی سے پھسلتی ہوئی نظر آنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس عالمی وبا نے ہر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کسی نے اسے اللہ کا قہر کہا، کسی نے اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت کا نام دیا۔ اس پر قابو پانے کے لئے تقریبا ہر ملک نے اپنے یہاں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ آمدورفت کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔ کام کاج ٹھپ پڑگئے۔ مزدور بے روزگار ہوگئے۔ بھکمری کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لوگ باگ اپنی جان کی پروا کرتے ہوئے اور اس سے بچنے کے لئے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہوگئے جبکہ چند مزدور پیدل اپنے گھروں کے لئے نکل پڑے ہیں۔
 ایسے حالات میں انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کیا یہ ممکن ہے کہ ایک وائرس کا علاج نہ مل سکے۔ طبی شعبے میں نت نئے علاج سے موذی و مہلک امراض پر قابو پایا جا رہا ہے، بیماریوں کو شکست دی جا رہی ہے۔لوگ شفا یاب ہو رہے ہیں۔ ترقی و تعلیم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔دنیا سمٹ کر انسان کی انگلی پر آگئی ہے۔ ہر ملک ترقی کی راہ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا ہےلیکن یہ مرض، جس کا علاج تلاش کرنے میں طبی ماہرین بے بس نظر آنے لگے آخر اس کی کیا وجہ تھی۔کیا یہ واقعی اللہ کا عذاب ہےیا اس کی ناراضگی ہے۔ اللہ کی مخلوق سے کہاں اور کیا غلطی ہوگئی کہ اسے اتنی بڑی سزا مل رہی ہے۔
 اگر غور کیا جائے تو ہمیں جواب مل جائے گا کہ ترقی کے اس دوڈ میں ہم نے قدرت کو چیلنج کر دیا ہے۔ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں دخل اندازی کرنے لگے ہیں۔ اپنے مرضی کے مطابق زندگی جینے لگے ہیں ہے۔ عیش و عشرت کی زندگی حاصل کرنے کے لئے مذہب کو داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ مذہب سے کوسوں دور ہوتے جارہے ہیں۔ ترقی کے نام پر اخلاقیات کا زوال شروع ہوگیا۔ ترقی تنزلی میں تبدیل ہونے لگی ہے۔ محبت کی جگی نفرت نے لے لی۔ تعصب پروان چڑھنے لگا ہے۔ مفاد پرستی عام ہونے لگی ہے۔ فیشن پرستی نے فحاشی اور عریانیت کو فروغ دیا اور اخلاقی قدروں کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ ہدایتیں اور نصیحتیں گراں گزرنے لگی ہیں۔ گھروں میں فاصلے بڑھنے لگے ہیں۔ والدین کے لئے گھر نہیں اولڈ ایج ہوم قائم ہونے لگے ہیں۔ 
 حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے لوگوں کو مقید کر دیا لیکن آج ضرورت اس بات کی ہے لاک ڈاؤن غیر اخلاقی رویے پر لاگو کیا جائے۔ نوجوانان نسل کی بے راہ روی، سماج میں پھیلی بے حیائی اور عریانیت پر لاک ڈاؤن کیا جا ئے۔ فیشن پرستی، مفاد پرستی اور خود غرضی پر لاک ڈاؤن کیا جائے تاکہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔ اس صورتحال میں ہم خواتین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ ہم خاتون خانہ ہیں اور پورے گھر کو سنبھالنے کا کام کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ ذہنوں کی صفائی، رویوں کی بہتری اور ایک دوسرے کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرتوں کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھالیں تو وائرس کیا بڑے بڑا شیطان بھی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ ہم عورتوںکو اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اپنے نونہالوں کی تربیت سے آغازکرنا ہو گا۔ ایک صالح معاشرے کےقیام کے لئے خواتین کا کردار بہت اہم ہے اور کورونا کے اس دور میں جہاںہر کوئی سماجی و نفسیاتی طور پر پریشان ہے، ہم خواتین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
 اس کے علاوہ ضرورت ہے اپنے روٹھے رب بنانے کی، اسے راضی کیا جائے، اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔ مذہبی باتوں پر عمل کیا جائے۔ خرافات سے بچا جائے۔ دینی شعور پیدا کیا جائے اور اپنے آپ کو اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، تب ایک صاف ستھرا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ ایسے ہی یہ وائرس خود بخود ختم ہو گا اورہمیں پھر کسی لاک ڈائون کی ضرورت نہیں پڑے گی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK