Inquilab Logo

ممبئی کی حمیرہ اور زبیدہ کا ایم بی بی ایس میں داخلہ کا خواب پورا

Updated: November 26, 2020, 8:35 AM IST | Agency

ناگپاڑہ کے ادریسی احسان اللہ نامی ٹیلر کی دوبیٹیوں کا ایم بی بی ایس میں داخلہ ہوگیاہے۔ حمیرہ اور زبیدہ نامی ان بچیوں کی یہ حصولیابی اسلئے خاص ہے کہ یہ پیدائشی طور پر پست قامت ہیں اور انہوں نے معاشی پسماندگی اور دیگر مسائل کی رکاوٹوں کو بخوبی عبور کیا ہے۔

Humaira and Zubaida
حمیرہ اور زبیدہ نے ڈاکٹر بننے کی طرف پہلا قدم بڑھادیا

ناگپاڑہ کے ادریسی احسان اللہ نامی  ٹیلر کی دوبیٹیوں کا ایم بی بی ایس میں داخلہ ہوگیاہے۔  حمیرہ اور زبیدہ  نامی ان بچیوں کی یہ حصولیابی اسلئے خاص ہے کہ یہ پیدائشی طور پر پست قامت ہیں اور  انہوں نے معاشی پسماندگی اور دیگر مسائل کی رکاوٹوں کو بخوبی عبور کیا ہے۔ بارہویں کے فوراً بعد ایم بی بی ایس میں داخلہ کی صورت نظر نہ آئی تو انہوں نے گریجویشن کیا اور پھر  نیٖٹ  امتحان میں شرکت کی اوراب  معذور طلبہ کے زُمرہ سے ایم بی  بی ایس گورنمنٹ کالج میں داخلہ حاصل کیا۔
حمیرہ  آپ اپنی پرائمری ، سیکنڈری اور کالج کی تعلیم سے متعلق بتائیں؟
حمیرا: میں نے جماعت اول تا چہارم ناگپاڑہ میونسپل اردو میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازیں  انجمن سیف طیب جی گرلز اسکول میں داخلہ لیا یہاں سے ۲۰۱۳ء میں دسویں کا امتحان۷۷ء۲۲؍  مارکس سے کامیاب کیا۔ پھر مہاراشٹر کالج سے ۲۰۱۵ء میں بارہویں سائنس ۶۶؍ فیصد مارکس سے کامیاب کیا۔ اس وقت  مہاراشٹر میں میڈیکل داخلے کیلئے سی ای ٹی  ہوا کرتا تھا، اس میں مجھے ۲۰۰؍ میں سے۸۰؍ نمبرات ملے تھے ۔ اس بنیاد پر  بی یو ایم ایس  میں داخلہ کا موقع تھا مگر  میں نے   بی ایس سی کرنا مناسب سمجھا۔  حالانکہ ہمارے ایک پروفیسر صاحب نے مجھے گیارہویں میں کہا تھا کہ تم DMER میں جاکر تفتیش کرو کہ تمہارا ہینڈی کیپ سرٹیفکیٹ بن سکتا ہے یا نہیں اگر بنتا ہے تو  معذوری کے زمرہ سے تمہیں ایم بی بی ایس کی سیٹ مل سکتی ہے۔ میں نے تحقیق بھی کی مگر تب  DWARF کٹیگری کے طلباء کو میڈیکل ایڈمیشن میں یہ سہولت مہیا نہیں تھی۔ اسلئے گریجویشن کے فیصلے کو اپنے حق میں مناسب سمجھا۔ ۲۰۱۸ء میں بی ایس سی کیمسٹری اے گریڈ۷ء۵؍  پوائنٹر سے مکمل کیا۔
 زبیدہ اب آپ  اپنے اب تک کے تعلیمی سفر سے متعلق بتائیں؟
زبیدہ:میں  نے انجمن اسلام الانا انگلش میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی،  ۲۰۱۴ء میں دسویں کا امتحان۷۵؍ فی صد مارکس سے کامیاب کیا۔ حمیرا مجھ سے عمر میں چھوٹی ہے لیکن وہ مجھ سے تعلیم میں ایک سال آگے ہے۔ میرا بھی داخلہ سائنس اسٹریم میں مہاراشٹر کالج میں کروادیا گیا۔ میں نے وہاں سے ۲۰۱۶ء میں بارہویں ۵۹؍ فی صد مارکس سے کامیاب کی۔ حمیرا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے  میں نے بھی بی ایس سی کیمسٹری میں داخلہ لیا اور ۲۰۱۹ء میں۷؍پوائنٹر سے اپنا گریجویشن مکمل کیا۔
 آپ دونوں کو نیٖٹ  امتحان کا خیال کیسے آیا؟
حمیرا: ایک دن دادی کے ساتھ ان کی دوا لینے کے لئے ناگپاڑہ گارڈن گئی۔ جہاں ایک ٹرسٹ کی جانب سے شفاء خانہ چلایا جاتا ہے۔ وہاں  ایک  بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کر رہی ہو بچی میں نے بتایا کہ بی ایس سی ہو چکی ہے۔ انہوں نے پھر ایک سوال کیاکہ آگے کیا کرنا ہے؟ میں نے جواب دیا پتہ نہیں۔ انہوں نے پھر ایک سوال داغ دیا ڈاکٹر بنو گی؟ میں نے کہا ہاں کیوں نہیں۔  میں نے پوچھا مگر کیسے؟ انہوں نے کہا نیٖٹ کی تیاری کرو۔ میں نے کہا نمبر کیسے لگے گا؟ انہوں نے میری سادگی دیکھ کر بڑا دلچسپ جواب دیا۶؍ فٹ لمبائی والے کوایم بی بی ایس  ایڈمیشن کیلئے۶۰۰؍ مارکس لگتے ہیں اس سے آدھے قد والوں کے لئے آدھے نمبر لگیں گے۔ پھر انہوں نے کسی کو فون لگا کر کچھ بات چیت کی اور مجھ سے کہا کہ  بیٹا اگر تم نیٖٹ کی  تیاری کرلو تو تمہارا صرف قد چھوٹا ہے تم بہت ہوشیار ہو اور ڈاکٹر بن سکتی ہو۔ میں نے ان سے کہا میری اور ایک بہن بالکل میری طرح ہے اس کا بھی نمبر لگ جائے گا کیا؟ انہوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔ اس کا بھی لگ سکتا ہے اگر وہ بھی تھوڑی محنت کر لے۔ ان کی  یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔ راستہ سے لوٹتے وقت میرے ذہن میں یہی خیال رہا۔ انہوں نے مجھ سے کسی اور دن آنے کا وعدہ بھی لیا تھا۔ 
 پھر نیٖٹ کی باقاعدہ کوچنگ کا فیصلہ کیسے کیا؟
حمیرا: میں اور میری بہن  ایک دن پھر وہ بزرگ سے ملاقات کی غرض سے گئے۔ انہوں نے ہمیں نیٖٹ کی تیاری اور ہینڈی کیپ کیٹیگری سے متعلق چند باتیں عرض کیں۔ و ہ بات ہمارے دل میں بیٹھ گئی اور ہم  نے تہیہ کرلیا کہ اب ڈاکٹر ہی بننا ہے۔پھر نیٖٹ کلاس کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔ حالانکہ نیٖٹ کی کوچنگ مہنگی ہوتی ہے اتنی فیس کا انتظام کرنا مشکل تھا مگر اللہ کا نام لے کر ایلن کوچنگ سینٹر پہنچے۔ یہاں بھاری بھرکم فیس کا سن کر ہم افسردہ ہو گئے لوٹنے ہی والے تھے کہ ا س سینٹر کے ہیڈ  نے ہمیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے ہماری تصویر کھینچی اور فورا ًایلن ہیڈ برانچ کوٹا(راجستھان) روانہ کی اور فون پر کسی سے بات کی وہاں سے انہیں  جواب ملا۔ جسے سن کر ہم دونوں خوش ہوگئے۔ ان صاحب نے ہمیں فیس میں۶۰؍ فیصد رعایت کے ساتھ۳؍ قسطوں میں فیس بھرنے کا موقع عنایت کیا۔ یوں ہمارا داخلہ گھاٹکوپر برانچ میں ہوگیا ہم دونوں بہنیں لاک ڈاؤن سے قبل تک بلا ناغہ ٹرین سے سفر کرکے گھاٹکوپر جاتی تھیں۔ بزرگ سے ملاقات کے بعد ہمیں محسوس ہونے لگا کے شاید یہ ہماری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بی ایس سی  میں کامیابی کے بعد بھی ابو ہمیں دیکھ کر کسی فکر میں مبتلا رہتے تھے۔ ابو ہمیشہ کہتے تم ذہنی طور سے بالکل فٹ ہو اگرچہ پستہ قد ہو۔ تم کم مائیگی کے احساس میں مبتلا مت رہنا۔ تمہارے لئے ہزار مواقع ہیں۔ تم صرف بی ایس سی کی ڈگری پر اکتفا مت کرو۔ یوں ہم نے دل لگا کر محنت کرنی شروع کر دی۔ ہم دونوں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اب کچھ بہتر ہونے والا ہے۔ ہم صبح سے جاتے اور دوپہر تک لوٹتے، کبھی شام ہو جاتی۔ گھر چھوٹا تھا اسلئے کوچنگ کے بعد بھی ہم اکثر وہیں پڑھنے بیٹھ جاتے۔  ہم نے خوب محنت کی نیٖٹ کا نتیجہ آیا حمیرہ کو نیٹ امتحان میں۲۲۸؍ مارکس ملے تھے جس کی بنیاد پر dwarfs (پستہ قدکٹیگری) معذوری کے زمرہ سے اسکا داخلہ ایم بی بی ایس  ٹوپی والا نائر کالج میں ہوا اور مجھے نیٹ میں۱۳۷؍ مارکس حاصل ہوئے جس کی بنیاد پر میرا داخلہ بھی ایم بی بی ایس کالج میں جی ایم سی جلگاؤں میں ہوا۔ گھر والوں کے ساتھ پورا خاندان بہت خوش ہے۔
آپ نے معذوری کا سرٹیفکیٹ کس طرح بنایا ؟
حمیرہ -زبیدہ:ہم ایسے والدین اور طلبہ سے کہنا چاہیں گے کہ دنیا کے ہر انسان میں کچھ نہ کچھ  خوبی اور خامی ہے۔  خیر، اگر آپ خود اس قسم کے حالات سے دو چار ہیں تو فکر کی ضرورت نہیں حکومت نے ایسے طلبہ کیلئےبےشمار مراعات فراہم کی ہیں۔ ہمارا ہینڈی کیپ سرٹیفکیٹ کم علمی کی وجہ سے ۲۰۱۷ء میں کافی تاخیر سے بنا۔  یہ سرٹیفکیٹ کسی بھی گورنمنٹ اسپتال سے بنایا جاتا ہے۔ اکثر والدین  ہاسپٹل کے چکر لگانے کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تھوڑی سی منصوبہ بندی اور درکار دستاویز کے ساتھ چند ہفتوں میں  یہ سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔  اگر کوئی شخص سرٹیفکیٹ بنانا چاہے تو اس سلسلے میں ہم خود ان کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔میڈیکل ایڈمیشن کیلئے اوپن کٹیگری کے زمرہ سے  معذورطلبہ کیلئے ۵؍فیصد سیٹیں مختص ہوتی ہیںلیکن وہ ہرسال پُر نہیں ہوتیںاور بقیہ نشستیں اوپن کٹیگری میں ضم ہوجاتی ہیں  ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK