Inquilab Logo

فی سیکنڈ۱۰؍ٹی بی ڈیٹا منتقل کرنےو الا پروٹو ٹائپ تیار

Updated: April 09, 2020, 6:40 AM IST | Agency

سائنسدانوں نے ایک نظام بنایا ہے جس کے تحت نظری طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک سیکنڈ میں۱۰؍ ٹیرا بائٹس(ٹی بی) کا ڈیٹا ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔ اس عمل کی تیاری میں ڈیٹا ٹرانسفر کی فری کوئنسی کو تبدیل کیا گیا ہے

Data Transfer - Pic : INN
ڈیٹا ٹرانسفر ۔ تصویر : آئی این این

 سائنسدانوں نے ایک نظام بنایا ہے جس کے تحت نظری طور پر یہ ممکن ہے کہ ایک سیکنڈ میں۱۰؍ ٹیرا بائٹس(ٹی بی) کا ڈیٹا ایک سے دوسری جگہ بھیجا جاسکتا ہے۔ اس عمل کی تیاری میں ڈیٹا ٹرانسفر کی فری کوئنسی کو تبدیل کیا گیا ہے۔ فری کوئنسی بڑھانے کی وجہ سے عین اسی جگہ پر بینڈ ودتھ یعنی ڈیٹا کی گنجائش کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ڈیٹا کی منتقلی پر اثر پڑتا ہے اور اس کی غیرمعمولی مقدار ایک سے دوسرے مقام بہت تیزی سے بھیجی جاسکتی ہے۔ اس سے قبل انجینئر غور کرتے آئے ہیں کہ بلند فری کوئنسی کا اسٹرکچر کو بڑھا کر ڈیٹا کی بڑی مقدار کو سنبھالا یا ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن اب رہوڈ آئی لینڈ کی براؤن یونیورسٹی کے ماہرِ طبیعیات ڈینیئل مٹل مین نے اس مسئلے کو کم ازکم نظری (تھیوری) حد تک ضرور حل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ڈیٹا کی بڑی مقدار میں منتقلی عین ممکن ہے۔ لیکن اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔اس کیلئے  عین وہی اصول استعمال کئے گئے ہیں جن کے تحت ہم ڈی ایس ایل سروسز حاصل کرتے ہیں۔ یعنی عام فون لائن پر براڈ بینڈ رابطے کے ذریعے چند میگاہرٹز کی فری کوئنسی کو بڑھا کر۲۰۰؍ گیگا ہرٹز تک لے جانا ممکن ہوسکے گا۔ اس کی تصدیق کے لیے انہوں نے ایک پروٹوٹائپ بھی تیار کیا ہے۔اس نظام کے تحت تاروں کو باندھا گیا ہے حساب کتاب لگایا گیا تو تین میٹر کی دوری پر۱۰؍ ٹیرا بٹس کا ڈیٹا پہنچ رہا تھا جبکہ۱۵؍ میٹر کی دور پر۳۰؍ گیگا بٹس کا ڈیٹا پہنچنا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تار کی لمبائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا ضائع ہونے کی شرح بڑھ رہی تھی۔ اسی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی اب تک کم فاصلے کیلئے  کارگر ثابت ہوسکتی ہے یعنی کسی عمارت اور ڈیٹا سینٹر میں اندرونی رابطوں کو تیز کرسکتی ہے۔لیکن ڈیٹا کو مزید دور تک بھیجنے کیلئے تحقیق اور ہارڈویئر پر کام کی مزید ضرورت ہے۔ یہ سفر جاری رہے گا جب تک کوانٹم انٹرنیٹ کی آمد نہیں ہوتی کیونکہ سائنسدانوں کا ایک طبقہ اس پر کام کررہا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK