Inquilab Logo

یو پی ایس سی کے انڈین اسٹیٹسٹکل سروس میں ۲۰؍واں مقام حاصل کرنیوالے سلیم الدین

Updated: January 15, 2020, 6:21 PM IST | Akhlaq Ahmed Shaikh | Mumbai

انڈین اسٹیٹسٹکل سروس (آئی ایس ایس)میں پان والے سلیم الدین قمرالدین نے قومی سطح پر ۲۰؍واں  اور مہاراشٹر میں اول مقام حاصل کرکے ملک و ملت کا نام روشن کیا ہے ۔ سلیم الدین کی ابتدائی تعلیم سانگلی ضلع کے خانہ پور تعلقہ کے محض ۷؍ فیصد مسلم آبادی والے قصبہ وِٹا سے ہوئی۔

سلیم الدین۔ تصویر: انقلاب
سلیم الدین۔ تصویر: انقلاب

انڈین اسٹیٹسٹکل سروس(آئی ایس ایس)میں  پان والے سلیم الدین قمرالدین  نے قومی سطح پر ۲۰؍واں  اور مہاراشٹر میں اول مقام حاصل کرکے ملک و ملت کا نام روشن کیا ہے ۔ سلیم الدین کی ابتدائی تعلیم سانگلی ضلع کے خانہ پور تعلقہ کے محض ۷؍ فیصدمسلم آبادی والے قصبہ وِٹا سے ہوئی۔اس گاؤں میںنگر پریشد کے ذریعے جماعت اول تا ہفتم اور سیکنڈری تعلیم کیلئے جماعت ہشتم تا دہم ایک نان گرانٹ اردو میڈیم اسکول قائم ہے۔ سلیم کے والد مقامی مارکیٹ میں سبزی بیچتے ہیں۔ گھرکُل یوجناکے تحت ملنے والے چھوٹے  سے مکان میں یہ لوگ رہتے ہیں ۔ سلیم کےایک ٹیچر کے بقول ’’وہ (سلیم ) بچپن سے ہی بلا کا ذہین اور دھن کا پکا  ہے ۔ ہمیشہ اول نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔  چونکہ اسکول نان گرانٹ  ہے، کم تنخواہ پر میتھس کے ٹیچر دستیاب نہیں تھے    سلیم نے یہاں  کے طلبہ کو   مفت میںمیتھس پڑھایا اور وہ بچوں کو پڑھاکر پھراپنے کالج جاتا ۔‘‘  سلیم سے ہونیوالی گفتگو یہ ہے: 
- اپنے اور اہل خانہ  کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سلیم الدین:میرے والد کا نام قمرالدین اور والدہ کا نام حسینہ ہے۔ ہم دو بھائی اور ایک بہن ہے بھائی کا نام علیم الدین ہے جس نے حال ہی میں انگریزی میں اپنا گریجویشن مکمل کیا اب ماسٹر ڈگری کے ساتھ سول سروسیز کی تیاری کا خواہشمند ہے اور بہن حنا کوثر ایم کام کی طالبہ ہے۔
-   ابتدائی تعلیم سے متعلق تفصیلات بتائیں۔
سلیم الدین: میری ابتدائی تعلیم جماعت اول تا ہفتم نگرپریشد اردو اسکول وِٹا سے ہوئیں۔ بعد ازیں  آٹھویں  جماعت کیلئے  رحمت اینگلو اردو ہائی اسکول میں میرا داخلہ ہوا۔ جہاں  دسویں بورڈ  امتحان میں مجھے۸۵؍فی صد مارکس حاصل ہوئے ۔
-دسویں  میں کامیابی کے بعدایک عام طالبعلم کی طرح ’آگے کیا کروں‘کی کشمکش سے گزرے؟
سلیم الدین: جی ہاں۔میں ایک چھوٹے سے قصبہ سے تعلق رکھتا ہوں خستہ معاشی حالات   اعلیٰ تعلیم کے حصول کی سب سے بڑی رکاوٹ تھے مگر والدین مجھے پڑھانا چاہتے تھے۔ یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ میرے والد ۳۵؍ اور۹۵؍فیصد مارکس کا فرق سمجھنے سے بھی قاصر لیکن وہ ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے کے متمنی رہے۔میں نے  بلونت کالج،  وِ ٹا میں گیارہویںسائنس (فزکس، کیمسٹری، بایولوجی اور میتھس)میں  داخلہ لیا۔بارہویں کا نتیجہ بھی شاندار رہا اور میں نے۸۷؍فیصد سے کامیابی حاصل کی۔میں انجینئرنگ میں داخلہ کا خواہشمند تھا مگر پھر وہی معاشی مجبوری میرے پیروں کی زنجیر بنی اور میں نے بی ایس سی کرنے کا فیصلہ کیا۔
- معاشی مجبوری کی وجہ سے آپ کو انجینئرنگ کا ارادہ ترک کرنا پڑا ، کیا  آپ اس وجہ سے دل برداشتہ  ہوئے ؟ آگے کا سفر کیسے طے کیا؟
سلیم : جی نہیں ،بالکل بھی نہیں،اللہ بہتر جاننے والا ہے۔  میں ذرا بھی دل برداشتہ نہ ہوا۔ انسان کے حالات اور مجبوریاں اسے بہت کچھ کرنے اور سیکھنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ میں نے ایک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ  بلونت کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ میتھس اور اسٹیٹسٹکس (شماریات) مضامین میں مجھے دلچسپی تھی ۔ میں نے دوسال خوب محنت کی فائنل ایئر میں میں ’اسٹیٹس ‘ بطورِ خاص مضمون لینا چاہتا تھا مگر یہاں  دستیاب نہیں تھا اس لئے میں نے وسنت دادا کالج تاسگاؤں کا رُخ کیا جو میرے گاؤں سے۴۰؍کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا ۔ میں روزانہ بس سے آتا جاتا ۔ مجھے فائنل ائیر بی ایس سی  میں ۹۶؍فیصدمارکس حاصل ہوئے اور میرا بی ایس سی کا مجموعی نتیجہ ۹۱ء۸۴؍   فیصد رہا۔   بعد ازیں  شیواجی یونیورسٹی  میں اسٹیٹسٹکس کے ساتھ پوسٹ گریجویشن کا فیصلہ لیا۔ شیواجی یونیورسٹی میں میرا داخلہ میرٹ لسٹ کی بنیاد پر دوسرے نمبر رینک کی پوزیشن پر تھا۔پی جی سیکنڈ ایئر میںہی میں نے’پی جی سیٹ‘ امتحان کوالیفائی کیا۔ پی جی کا سفر بھی شاندار رہا ماسٹر ڈگری میں مجھے ۷۸؍ فیصد مارکس حاصل ہوئےاور میں کسی کالج میں بطورِ پروفیسر بننے کا اہل ہو چکا تھا۔ میں نے’GATE‘امتحان بھی دیا جس کا مجموعی نتیجہ آل انڈیا رینک۲۳؍تھا۔خستہ مالی حالت کے مسئلے سے نپٹنے کیلئے   میں نے ہر مرتبہ یہی کوشش کی کہ امتیازی نمبرات حاصل کروں تاکہ گورنمنٹ کوٹہ سیٹ ملے اورمیرا تعلیمی خرچ کم ہو ۔ 
- گھریلوحالات ٹھیک نہیں تھے پھر آپ نے کوئی جاب یا کسی کالج میں لیکچرارشپ کیوںاختیار نہیں کی؟
سلیم : دراصل  میںنے اپنا’گول‘طے رکھا تھا اور اس کیلئے  ’پلان اے‘کے طور پر اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کا ہدف طے کیا تھا اور ’پلان بی ‘کے طور پر جلد نوکری حاصل کرکے  اپنے گھریلو حالات پر توجہ دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔میں نے پہلے’پلان بی‘ اپنایا اور پونے میں ایک پرائیوٹ فرم میں ملازمت اختیار کر لی۔
- مقابلہ جاتی امتحانات دینے کا خیال کیسے اور کیوں آیا ؟ 
سلیم :  پونے کی ایک فرم میں ۶؍ مہینے تک ملازمت کی۔ وہاں سب کچھ ٹھیک تھا،اچھی تنخواہ اوربہتر سہولیات۔ مگر اطمینان نہ تھا بے چینی کی کیفیت باربار سر اٹھاتی۔کام میں دل نہیں لگتا تھا ۔ وہیں دماغ میں ’پلان اے‘بار بار دستک دے رہا تھا میں نے اسی کی آواز سنی۔حالانکہ اس وقت جاب چھوڑنے کا فیصلہ  میرے لئے انتہائی مشکل تھا۔ میں نے’آئی ایس ایس‘ کی تیاری کا فیصلہ کیا میرے پاس انتہائی کم وقت تھا ۔ جون  میں دن رات سخت محنت کرکے میں نے ’آئی ایس ایس‘ دیا۔اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں جو ہدف بنایا  اس میں مجھے شاندار کامیابی ملی ۔   امسال کل۳۲؍طلبہ کا انتخاب ہوا ہے جن میں سے میں ایک ہوں ۔اب دو سال تک میری گریٹر نوئیڈا میں ٹریننگ ہوگی۔جو طلبہ میتھس اور اسٹیٹس مضمون میں مہارت رکھتے ہو ان  لئے یہ ایک بہترین کرئیر ہے۔
- طلبہ کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
سلیم:میں تمام طلبہ سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھیں اور پھر اسکی تعبیر کیلئے کوشاں ہوجائے۔ ہدف جتنا بڑا ہوگا اسے حاصل کرنے میں مزہ بھی اتنا آئیگا۔ کامیابی کیلئے  محنت درکار ہے اسکا کوئی شار ٹ کٹ راستہ نہیں ہے ۔ دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں بس ایک بار ٹھان لیں   اورصدق دل سے کوشش کریں۔  ایک بات اورآپ کے ٹیلنٹ کی قدر کرنے والے لوگ دنیا میں بہت ہیں۔ جس طرح بہتا پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح آپ کی  ذہانت و قابلیت کا کوئی راستہ روک نہیں سکتا۔

youth Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK