Inquilab Logo

تعلیمی میدان میں کامیابی کیلئے ا پنا ہدف متعین کریں

Updated: October 18, 2020, 8:44 AM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed

نیٹ امتحان میں ۱۰۰؍فیصد نمبر حاصل کرکے پورے ملک میں ٹاپ کرنے والےشعیب آفتاب سے خصوصی گفتگو ، انہوں نے اپنی کامیابی کیلئے اساتذہ اور والدین دونوں کو کریڈٹ دیا ، ساتھ ہی کہا کہ انہوں نے اپنا ہدف طے کرلیا تھا جس کے سبب انہیں یہ کامیابی ملی

Shoeb Aftab with Family
شعیب آفتاب اپنی والدہ سلطانہ رضیہ اور چھوٹی بہن علیشہ کے ساتھ

 میڈیکل فیلڈ میں داخلہ کیلئے بارہویں جماعت میں کامیاب طلباء کیلئے۱۳؍ ستمبر اور۱۴؍اکتوبر کو منعقد نیٹ داخلہ امتحان میں امسال ۱۵؍لاکھ ۹۷؍ ہزار طلبہ نے رجسٹریشن کروایا تھا جن میں سے ۱۳؍ لاکھ ۶۶؍ ہزار ۹۴۵؍نے امتحان دیا تھا۔۷؍ لاکھ ۷۱؍ ہزار ۵۰۰؍ طلبہ نے اس سال یہ امتحان کوالیفائی کیا۔ ان تمام طلبہ میں ادیشہ   کے طالب علم شعیب آفتاب نے ۷۲۰؍ میں سے ۷۲۰؍ مارکس حاصل کر کے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔سرویدایا سینئر سیکنڈری اسکول کے طالب علم شعیب آفتاب نے اس کامیابی کا سہرا اپنے اسکول ٹیچرس اور والدین کو دیا ہے۔ اس سلسلے میں ان سے کی گئی گفتگو کے اقتباسات پیش ہیں :
سوال : شعیب اپنا تعارف پیش کریں؟
جواب : جی میرا نام شعیب آفتاب ہے۔  میں ادیشہ سے تعلق رکھتا ہوں۔     میری تاریخ پیدائش۲۳؍ مئی ۲۰۰۲ء ہے۔ میرے والد کا نام شیخ محمد عباس ہے ۔وہ کامرس گریجویٹ  ہیں اور کاروبار کرتے ہیں ۔ میری والدہ کا نام سلطانہ رضیہ ہے اور وہ خاتون خانہ ہیں۔  میری ایک بہن ہے اور اس کا نام علیشہ سلطانہ ہے جس کی عمر دس سال ہے۔  
سوال : اپنی ابتدائی تعلیم کے تعلق سے کچھ وضاحت کریں؟
جواب : جی میں نے ڈیسوزا کے اسکول راؤرکیلا میں دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ مجھے دسویں جماعت میں۹۷؍فیصد مارکس حاصل ہوئے تھے جبکہ سرودیا سینٹر سیکنڈ اسکول کوٹہ سے میں نے بارہویں کا امتحان کامیاب کیا جس میں مجھے ۹۶؍ فیصد مارکس حاصل ہوئے ۔
سوال: کوٹہ راجستھان آنے کا مقصد بیان کریں؟وبائی صورتِ حالات کے دورانِ کیسے پڑھائی کی؟ 
جواب :کورونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون کی چھٹیوں کو میں نے مثبت انداز میں استعمال کیا اور آن لائن پڑھائی کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ متواتر شیڈول کے مطابق آن لائن ٹیسٹ پر توجہ مرکوز کی اور ٹیسٹ کے نتیجے کی بنیاد پر جہاں مجھے کم مارکس ملتے میں کوچنگ سینٹر سے اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرتا۔ میرے اساتذہ نے لاک ڈاؤن میں میری مسلسل رہنمائی کی جس کا مجھے بہت فائدہ حاصل ہوا۔ ساتھ ہی میرے والدین ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ 
سوال: کوٹا کے سفر سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کریں؟
جواب :کوٹا کا سفر میں  نے اپریل۲۰۱۸ء میں اس خواب کے ساتھ کیا تھا کہ نیٹ ۲۰۱۹ء میں جو امتحان منعقد ہوگا اس میں میں اتنے نمبر حاصل کر لوں کہ کم از کم میرا ایم بی بی ایس میں داخلہ ممکن ہو جائے۔ خاندان میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ ہم کوٹہ پہنچے۔ سرودیہ سینئر سیکنڈری کالج جوائن کرکے ایک نامور کوچنگ سینٹر بھی جوائن کیا۔ وہاں پڑھائی کا ماحول ملنے کے بعد میرا حوصلہ بڑھا اور پھر میں نے محنت کر کے پہلے ۵۰۰؍میں ٹاپ آنے  کے بعد  ٹاپ۱۰۰؍میں جگہ بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ جوں جوں میں محنت کرتا گیا میرا گراف بڑھتا گیا اور پھر میں فائنل ۵۰؍ میں آنے لگا۔ لاک ڈاؤن پریڈ میرے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔  جب سے میں کوٹہ آیا تھا میں نے ایک بات کا تہیہ کر لیا تھا اور والد صاحب سے بھی کہہ دیا تھا کہ اب میں کامیابی حاصل کرنے اور اپنے خواب کی تکمیل کے بعد ہی کوٹہ سے ادیشہ واپس آئوں گا اور وہ میںنے کر دکھایا۔ 
 سوال: شعیب آپ نے  صد فی صد مارکس حاصل کئے ۔ آپ کی پڑھائی کا معمول کیا تھا؟
جواب :  عام  دنوں میں کالج میں ۶؍گھنٹے پڑھائی کرتا تھا ۔۴؍گھنٹے کوچنگ سینٹر میں پڑھائی ہوتی تھی اور تین گھنٹوں سے زائد میں سیلف اسٹڈی کرتا تھا۔ ضرورت کے مطابق پڑھائی کے گھنٹے کبھی کبھی زیادہ بڑھا دیتا۔ یہ اس وقت کی صورتِ حال پر منحصر ہوتا تھا  لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ میں نے پورا ٹائم ٹیبل بنایا تھا اور اسی کے مطابق عمل کرتا تھا ۔ 
سوال : آپ کی کامیابی میں والدین کا کیا رول ہے؟
 جواب :  ان کے بغیر  اس طرح کی  کامیابی کا تصور ہی ممکن نہیں تھا۔ جب میں نے کوٹہ آنے کا فیصلہ کیا تو میری والدہ میرے ساتھ ادیشہ کو خیر آباد کہہ  میرے ساتھ  یہیں کوٹہ میں مقیم ہو گئیں۔ میرے والد ادیشہ میں ہی میرے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئےتنہا مقیم رہے۔ میری والدہ میرے لئے ایک آئیڈیل شخصیت  ہیں۔ انہوں نے میری تعلیم کا بہت خیال رکھا۔ وہ آرٹس گریجویٹ  ہیں۔ انہوںنے ہمیشہ مجھے پڑھائی کی ترغیب دی اور حوصلہ بڑھاتی رہیں ۔
 سوال: وبائی صورتِ حال کے پیش نظر امتحانات معلق تھے کیا اس وجہ سے آپ پر بھی امتحان کا خوف طاری ہوا تھا؟ 
جواب :اس مرتبہ کورونا کی وجہ سے امتحانات کی تاریخیں بار بار موخر ہو رہی تھی۔ روزانہ مختلف خبریں ملتی تھیں اس کی وجہ سے میں نے بھی دبائو محسوس کیا لیکن اپنے آپ کو ہر طرح سےپر سکون رکھنے کی کوشش بھی کی ۔ میں نے ایک بات طے کرلی تھی کہ امتحانات جب بھی ہو میں تین گھنٹوں کا پورا پورا استعمال کروں گا۔ اس دوران میرے کوچنگ ٹیچرز اور خصوصی طور پر میری والدہ نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔-

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK