Inquilab Logo

ایک ردی فروش کا بیٹا جو ایم پی ایس سی امتحان میں کامیابی ہوکر اب نائب تحصیلدار بن گیا ہے

Updated: July 02, 2020, 11:26 AM IST | Agency

آج ہم امراوتی ضلع کے تیوسا گاؤں کے ایک ردی و بھنگارفروش کے بیٹے کی کامیابی کی کہانی پیش کررہے ہیں۔ اس نے نامساعد حالات، معاشی تنگدستی اور مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد رکھی اور ایم پی ایس سی امتحان میں  کامیاب ہوکر سرکاری افسر بننے کا اپنا خواب پورا کرلیا۔

Akshay with Parents - Pic :  Inquilab
اکشے اپنے والدین کے ساتھ ۔ تصویر : انقلاب

 آج ہم  امراوتی ضلع کے تیوسا گاؤں کے ایک ردی و بھنگارفروش کے بیٹے کی کامیابی کی کہانی  پیش کررہے ہیں۔ اس  نے نامساعد حالات، معاشی تنگدستی اور مشکلات کے باوجود اپنی جدوجہد رکھی اور ایم پی ایس سی امتحان میں  کامیاب ہوکر سرکاری افسر بننے کا اپنا خواب پورا کرلیا۔  اکشے کلنگڑ نامی اس نوجوان کی یہ شاندار کامیابی یہ پیغام دیتی ہے کہ:’’بھیگے ہوئے پروں سے بھی پروازکرکے دیکھ= انجام اس کے ہاتھ ہے، آغاز کرکے دیکھ ‘‘ 
 اکشے نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع پریشد مراٹھی میڈیم اسکول تیوسا سے مکمل کی اورآٹھویں  سے۱۲؍ ویں دیو راؤ دادا ہائی اسکول و جونیئر کالج تیوسا سے حاصل کی۔ ایس ایس سی  میں ۸۵؍ اور ایچ ایس سی سائنس میں۶۸؍ فی صد نمبرات حاصل کئے۔ ایچ ایس سی بورڈ کے امتحان میں کم نمبروں کی وجہ سے اکشے کو بہت افسوس ہوا ۔ اکشے نے بتایا کہ’’میں نے اسی دن یہ طے کرلیا تھا کہ میں اپنے حالت کو تبدیل کرنے کے لئے سخت محنت کروں گا۔ شیواجی شکشن سنستھا کالج آف انجینئرنگ آکولہ ودربھ میں بی ای میکانیکل میں داخلہ لیا اور۷۶؍فیصد مارکس کے ساتھ اپنی ڈگری حاصل کی۔ انجینئرنگ کے دوران شری کانت سر جو آکولہ میں بطورِ کلکٹر کے عہدے پر فائض تھے نے اس وقت مسابقتی امتحانات کے عنوان پر متعدد لیکچرز سیریز کا انعقاد کیا تھا۔ جن میں  انہوں نے ایم پی ایس سی اور یو پی ایس سی امتحانات کیا ہیں؟  ان امتحانات کی تیاری کیسے کرنی ہے؟ کیا پڑھنا ہے؟ اورکیوں پڑھنا ہے؟ کے بارے میں مفصل جانکاری دی تھی۔ اس لیکچر سیریز نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا، یہیں سے مجھے ترغیب ملی اور تبھی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ گریجویشن کے بعد میں مسابقتی امتحان کی تیاری کروں گا۔‘‘ اکشے نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’امتحانات کے ختم ہوتے ہی گھریلو مسائل نے گھیر لیا۔ کالج میں کیمپس سلیکشن ہوا اور پھر میں نے ناسک کی ایک کمپنی میں ملازمت  اختیار کی۔ چند مہینے گزرے اور میں بے چین رہنے لگا، مجھے  احساس ہوا کہ اتنی کم تنخواہ پر گزارا کرنا مشکل ہے۔ڈرتے ڈرتے  والدین سے اپنے دل کی بات کہہ دی کہ میں سرکاری افسر بننا چاہتا ہوں،  ماں نے کہا ہم دونوں ان پڑھ ہیں اب تک تعلیمی سفر میں تمام معاملات میں تمہاری مرضی اور فیصلے شامل ہے۔  تم جو کرنا چاہتے ہو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ اکشے نے بتایا کہ ’’مجھے بچپن سے ہی  مطالعہ کا شوق تھا طالب علمی کے زمانے سے ہی  غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ جیسے تقریری مقابلے، مضمون نویسی مقابلے، جنرل نالج کمپیٹیشن وغیرہ۔چونکہ والد ردی بیچتے تھے اسلئے اکثر پرانے اخبار کے تراشے، لوک راجیہ میگزین اور کمپیٹیشن سکیس نامی رسائل خاص طور سے مجھے پڑھنے کیلئے گھر لے آتے تھے،اس طرح میرے اندر بچپن سے پڑھنے کا شوق اور جذبہ بڑھتا چلا گیا۔‘‘
 اکشے نے ملازمت چھوڑنے  کے بعد راجا شری شاہو مہاراج لائبریری تیوسا جوائن کی اور مسابقتی امتحانات کی تیاری  میں لگ گئے۔انہوں نے بتایا کہ’’ مولانا آزاد اسکیم کے تحت میرا داخلہ یونائیٹڈ اکادمی میں ہوا جہاں امول سر کی ماتحتی و رہنمائی میں پڑھائی کے طریقے سے واقفیت حاصل ہوئی۔بابا صاحب امبیڈکر  ریسرچ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے منعقدہ اہلیتی امتحان میں کامیابی کے بعد الٹرنیٹیو لرننگ سسٹم  دہلی میں میرا داخلہ ہوا جہاں   سول سروسیز کی تیاری کی، یہاں ۱۱؍مہینے گزارنے کے بعد  مجھے پڑھائی کے طریقے سے اچھی طرح واقفیت حاصل ہو چکی تھی۔ لہٰذا میں نے گھر رہ کر سیلف اسٹڈی کرنے کا من بنایا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ’’ اس وقت حالات جوں کہ توں ہی رہے اب بھی مالی مشکلات سامنے تھی۔ دہلی میں مفت رہائش، کھانا اور کوچنگ کے ساتھ مجھے۱۲؍ہزارروپے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا تھا۔ میں ہر ماہ وظیفہ سے کچھ رقم بچا لیا کرتا تھا اس رقم سے میں نے کتابیں خریدیں اور ٹیسٹ سیریز جوائن کی۔  مگر اب بھی ایک ذہنی کشمکش تھی کہ ایم پی ایس سی کروں یا یو پی ایس سی ؟ دوستوں اور میرے استاد سے مشورہ کیا اوراسکے بعد پلان بی کا سہارا لیا۔ یکے بعد دیگرے آگے بڑھتا گیا اور اب  ایم پی ایس سی کامیاب ہوگیا ہوں، میری پوسٹنگ بطورِ نائب تحصیلدار ہوگی۔اگرچہ یہ میری ڈریم پوسٹ نہیں۔ اس لئے  ایک  نئے عزم ساتھ کوشش کروں گا۔‘‘ بقول اکشے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو عجیب محسوس ہوتا ہے۔ میری کامیابی میں سب سے بڑا حصہ میرے والدین کا ہے۔  دورانِ ٹیلی فونک انٹرویو  دروازے کی کنڈی بجی اوردروازہ چرمراہٹ کے ساتھ کھلنے کی آواز آئی ۔ اکشے نے ہمیںبتایا کہ ’’ بابا(والد) آئےہیں۔‘‘ پھر بات آگے جاری رکھتے ہوئے رندھی  آواز میں کہاکہ ’’ اب بھی بابا بھنگار بیچتے ہیں کیونکہ بابا کی نظر میں  اب بھی میں بے روزگار ہی ہوں اگرچہ میں امتحان کامیاب ہوچکا ہوں لیکن باقاعدہ پوسٹنگ نہیں ہے۔ ابھی تو ٹریننگ  باقی ہے اور پھر جوائننگ ہوگی ۔  بابا کا کہنا ہے جب تیری پہلی تنخوا ہ ہوگی تب ہی میں اپنا کام بند کروں گا۔‘‘ اکشے کے والد نے کہا کہ ’’ابھی پھیری کر کے لوٹا ہوں ،مجھے تین لڑکے تھے دو کا دیہانت (انتقال)  ہو گیا۔ ایک لڑکی ہے جو ابھی پڑھ رہی ہے میں نان میٹرک ہوں اور اکشے کی ماں چار کلاس فیل ہے۔  مجھے پہلے سے ہی لگتا تھا میرا اکشے میرے حالات بدل دےگا۔ اسکول کے زمانے سے ہی اسے بہت انعامات ملتے تھے وہ بہت اچھی تقریر کرتا ہے۔ پڑھائی میں ہوشیار تھا۔ بھگوان اکشے جیسا بیٹا سب کو دے۔میں سبھی والدین سے ایک بات کہوں گا کہ  والدین نے اپنے بچوں کو پڑھنے کا بھرپور موقع دینا چاہئے ان کے سامنے  حالات کا رونا نہیں رونا چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK