Inquilab Logo

ذہنی صحت کے ساتھ جذباتی صحت کا بھی خیال رکھیں

Updated: March 11, 2020, 2:40 PM IST | Anita Singh

زندگی ہمیشہ آپ کے من کے مطابق نہیں چلتی، زندگی کو بھی تو کبھی من مانی کر دیں.... خواہشوں پر بندشیں تو نہیں لگا سکتیں لیکن ان کی پوری ہونے کی شرط کیوں؟ جب سب کچھ من چاہا نہیں ہوتا تو اس کا سیدھا اثر من پر ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اپنے من کی صحت کا خیال رکھیں اور اسے بیمار نہ پڑنے دیں

Family Outing - Pic : Mid-Day
ذہنی صحت کے ساتھ جذباتی صحت کا بھی خیال رکھیں ۔ تصویر : مڈ ڈے

ہم اپنے آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ جب کبھی ہم بیمار پڑ جاتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اپنی زیادہ دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح سے جب ہمارا من بیمار پڑتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا جواب ہوگا کہ کچھ نہیں، کیونکہ من بھی کبھی بیمار پڑتا ہے؟ لیکن سچ تو یہی ہے، جس طرح جسم (تن) بیمار پڑتا ہے اسی طرح من بھی بیمار پڑتا ہے۔ اسے بھی اس وقت زیادہ فکر کی ضرورت ہے لیکن ہم یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہمارا من بیمار ہوگیا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ اپنے من یعنی جذباتی صحت کا بھی خیال رکھیں، اسے بیمار نہ ہونے دیں اور اگر بیمار ہو بھی جائے تو من کے ڈاکٹر یعنی ماہر نفسیات کے پاس جاکر اس کا علاج کروائیں:
کیا ہیں من کی بیماری کی علامات؟
ڈر اور گھبراہٹ: یہ من کی بیماری کی ایک بڑی علامت ہے۔ آپ کے من میں بے وجہ غیر محفوظ ہونے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بے سبب ڈر اور گھبراہٹ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگوں پر بھروسہ کم کرنے لگتے ہیں۔
ناراضگی، غصہ اور الزام تراشی: اگر آپ اپنی زندگی کی تکلیفوں کے لئے بار بار دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہیں نہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے۔ آپ کو اپنی صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ مانا، آپ کے ساتھ برا ہوا ہوگا لیکن دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ہم منفی صورتحال میں بھی کس طرح سے ردعمل ظاہر کرتے یہ ہم پر منصر ہے۔
قصور وار، شرمندگی، پچھتاوا: آپ نے کچھ غلطیاں کی ہوں گی۔ ظاہر سی بات ہے، زندگی پرفیکٹ نہیں ہوتی، ہم سبھی غلطیوں ہی سے سیکھتے ہیں، لیکن اس کیلئے کب تک خود کو قصور وار ٹھہرائیں گے، شرمندگی یا پچھتاوے کا جذبہ من میں قائم رکھیں گے؟ آپ کو خود کو معاف کرنا سیکھنا ہوگا۔ آپ پرفیکٹ نہیں ہیں اور ہوسکتا ہے آپ کی وجہ سے دوسروں کو یا آپ کو بھی تکلیفوں سے گزرنا پڑا ہو مگر کب تک خود کو قصور وار مانتے رہیں گے؟ معافی مانگ لیں اور خود کو بھی معاف کر دیں۔
چڑچڑا پن اور منفی سوچ: منفی سوچ کئی وجوہات کے سبب ہوسکتی ہیں لیکن وہ آپ کی فطرت ہی بن جائے تو یہ من کے بیمار ہونے کی علامت ہے۔ منفی سوچ ہی چڑچڑے پن کو بڑھاتی ہے۔ دولت، ملازمت، رشتے اور سماجی دباؤ کئی وجوہات ہیں، جو منفی سوچ پیدا کرنے کا سبب ہوتی ہیں مگر آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس طرح سے منفی سوچ کے سبب سے آپ دور رہ سکتے ہیں۔
اداسی اور تھکان: ہمیشہ تھکان اور اداسی محسوس کرنا جسم کی نہیں، من کے بیمار ہونے کی علامت ہے۔ توانائی محسوس نہ ہونا، مایوس ہوجانا... جیسے رویہ اپنا لینا، اس طرح کے جذبات یہی اشارہ کرتی ہیں کہ آپ کو اب ماہر نفسیات کی ضرورت ہے۔
وجوہات
 من کی بیماری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جس میں سماجی، خاندانی، معاشی اور خود کی شخصیت بھی ذمہ دار ہوسکتا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ اپنی ملازمت کے تعلق سے پریشان ہوں اور کوششوں کے باوجود بھی ترقی نہیں مل رہی ہو تو کئی طرح کے ڈر من میں حاوی ہوجاتے ہیں۔ مستقبل کی فکر، معاشی تنگی، سماج میں ناپسندیدگی وغیرہ باتیں دھیرے دھیرے منفی سوچ کا سبب بن جاتی ہے۔
مسئلہ کا حل
 اگر آپ ڈر و گھبراہٹ کا شکار ہو رہے ہیں تو اپنے ڈر کی وجوہات کو پہچانیں۔
 ڈر کی وجوہات جان کر اسے ختم کرنے کی کوشش کریں۔
 لوگوں پر اعتماد کرنا سیکھیں۔
 مثبت سوچ رکھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ ان لوگوں سے رابطے میں رہیں جو آپ کی ہمیشہ مدد کرتے ہیں۔ آپ کو یہ محسوس ہوگا کہ سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
 کسی بات کے تعلق سے کوئی شک و شبہ ہے تو بہتر ہوگا کہ اپنی غلط فہمیوں کو بات چیت سے دور کریں۔ باتوں کو من میں رکھنے سے اندر ہی اندر کڑھنے سے منفی سوچ میں اضافہ ہوگا۔
 معاف کرنا اور معافی مانگنا سیکھیں۔
 آپ کے من کو پہچانیں۔ اپنے من کی بیماری سے دور بھاگنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس کا سامنا کریں اور علاج کروائیں۔
 جب کبھی صورتحال سے بھاگنے کا من ہو تو اپنا دھیان دوسری سرگرمیوں میں لگائیں۔
 نئے دوست بنائیں، ان سے ملیں گے تو توجہ منفی باتوں سے ہٹ جائے گی۔
 کبھی کسی خاموش جگہ جاکر چھٹیاں گزاریں۔
 روزانہ ہلکی پھلکی ایکسرسائز کریں۔
 منفی سوچ رکھنے والوں سے دور بنائیں۔
 صحت بخش غذا کھائیں۔
 گاجر، دہی، مچھلی، خشک میوہ جات، دارچینی، ادرک، لہسن وغیرہ  ہارمونس کو کنٹرول کرنے میں معاون ہیں۔ ان سبھی کو اپنی غذا میں شامل کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK