Inquilab Logo

معافی مانگنا اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟

Updated: January 20, 2021, 12:20 PM IST | Shaikh Saeeda Unsari

ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو افراد معاف کرنے کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان کے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔ وہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول، امراض ِ قلب اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، تو معاف کرنا خود کے لئے ہی ایک نعمت ہے

Muslim Women - Pic : INN
مسلم خاتون ۔ تصویر : آئی این این

معاشرے کے آئینہ میں یہ صاف دکھائی دیتا ہے معاف کرنے کا رواج کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے۔ کسی کو معاف کرنا گویا تذلیل کی بات سمجھی جا رہی ہے۔ اسی لئے تو معاف کرنے کے بجائے انتقام لینے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد، مار پیٹ، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا جا رہا ہے جو تشویش کا باعث ہے۔
 اس تشویش کے منظر کو بدلنے کا واحد حل معاف کرنا اور معافی طلب کرنے میں ہے۔
 قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لوگوں کو اتنی جلدی معاف کر دیا کرو جتنی جلدی تم اللہ سے معافی کی اُمید کرتے ہو۔
 امریکن سکولوجی اسوسی ایشن کے مطابق، معاف کرنا خود کی طرف سے کیا جانے والا ایک طرفہ عمل ہے یہ خود سے خود کو دینے والا بہترین تحفہ ہے جو مندرجہ ذیل فوائد کا حامل ہے:
ز نفرت، غصہ اور انتقام سے نجات ملتی ہے۔
ز ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ز قوتِ برداشت، صبر و تحمل کو فروغ ملتا ہے۔
ز معاف کرنا، سوچ میں وسعت اور زندگی کو ماضی کی بیڑیوں سے آزادی دلاتا ہے اور زندگی آگے بڑھتی ہے۔
 معاف کرنا اتنا بابرکت فریضہ ہے اس کے باوجود آج کے ماحول میں اتنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟ تو جواب یہی ہے کہ ہمارا یہ یقین ہے کہ ہم معاف نہ کرکے انتقام لے رہے ہیں۔ ان واقعات، ان رویوں کو یاد کرکے خود کو اذیت دینے کو انتقام سمجھ رہے ہیں تو اس کی مثال کچھ ایسی ہے کہ خود نفرت کا زہر پی رہے ہیں اور یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ مر جائے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ تو پھر یہ خود کو اذیت اور تکلیف دینے کے سوائے کچھ نہیں ہے۔
 ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو افراد معاف کرنے کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیتے ہیں وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ ان کے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔ وہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول، امراض ِ قلب اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، تو معاف کرنا خود کے لئے ہی ایک نعمت ہے۔
 اس کا دوسرا پہلو جو معافی طلب کرنا ہے جو ماہرین کی رائے میں یہ انسانیت کی معراج ہے۔ یہ خود کی اصلاح کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہے کہ خود کی غلطیوں کی نشان دہی کرنا اور سامنے والے شخص سے اقرار رکرنا ہے۔
 اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ خود سے کی گئی غلطیوں اور زیادتیوں کا احساس تو ہوتا ہے لیکن اقرار کرنے سے کتراتے ہیں۔ انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ احساس تو ہے لیکن ماننے سے انکار کیا جاتا ہے۔
 امام غزالی کے مطابق: فرشتہ وہ ہے جو غلطی نہیں کرتا، شیطان وہ ہے جو غلطی کرکے ڈٹ جاتا ہے لیکن انسان وہ ہے جو غلطی کرتا ہے اور معافی طلب کرتا ہے۔
 یہ ایک انسانی صفت ہے جو مندرجہ ذیل فوائد دیتی ہے:
ز اپنی غلطی پر معافی طلب کرنا بہت ہی جرأت کا کام ہے۔
ز ہمارے اندر موجود اَنا اور خود سری جیسے جذبات کی شکست ہوجاتی ہے۔
ز کسی کو تکلیف دی اس کا احساس ہوتا ہے۔
ز جس سے آپ نے معافی مانگی ہے، اس کی نظروں میں آپ کی قدر و منزلت بڑھتی ہے۔ آپ کی شخصیت پُروقار ہوتی ہے۔
 ’’معاف کرنا‘‘ اور ’’معافی طلب کرنا‘‘ یہ دو چھوٹے چھوٹے جادوئی الفاظ زندگی میں بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں جو رشتوں کی مٹھاس کو بڑھاتے ہیں۔ قربت پیدا ہوتی ہے۔ رشتوں کو مضبوطی ملتی ہے۔ سب سے اہم ذہنی سکون ملتا ہے جو دنیاؤی اور دینی اعتبار سے ایک نیک عمل ہے۔
 اس نیک عمل کو اپنانا اپنی زندگی کا مقصد بنائیں جب تک عملی طور پر کوشش نہیں کی جاتی یہ ایک نیک ارادے کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ جیسے جیسے ہم ’’معاف کرنا‘‘، ’’معافی طلب کرنے‘‘ کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں گے زندگی پُرسکون ہو جائے گی۔
معافی کیسے مانگیں؟
ز خط لکھ کر معافی مانگیں۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ خیال بہت پرانا ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ یہ خیال آج بھی اتنا ہی کارگر ہے جتنا پہلے تھا۔ آپ اپنے خط میں اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔
ز کارڈ اور پھول دیں۔ اس طریقے سے سامنے والے کا غصہ غائب ہو جائے گا۔
ز میسیج کریں۔ یہ ایک کارگر طریقہ ہے معافی مانگنے کا کیونکہ اس سے آپ بآسانی اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور سامنے والا بھی آپ کی بات کو بخوبی سمجھ جاتا ہے۔
ز معافی مانگنے کی شروعات اس طرح کریں، آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہے اور آپ اپنی غلطی قبول کر رہے ہیں۔ اس سے سامنے والے کو احساس ہوگا کہ آپ اپنی غلطی پر شرمندہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK