Inquilab Logo

زرعی شعبے میں خواتین بھی اہم رول نبھاتی ہیں

Updated: January 28, 2021, 12:39 PM IST | Anshu Singh

جب بھی آزادیٔ نسواں اور خودمختاری کی بات آتی ہے تو لوگوں کے ذہن میں دفتر جانے والی شہری خواتین کی شبیہ ابھر کر آتی ہے، مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ گاؤں میں رہنے والی خواتین بھی زرعی شعبے میں اہم رول نبھاتے ہوئے ملک کی معیشت میں اپنی حصہ داری درج کروا رہی ہیں

Women in Agriculture Sector - Pic : INN
خواتین زرعی شعبے میں ۔ تصویر : آئی این این

جب بھی ہم ڈائننگ ٹیبل پر اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ مزیدار پکوان کا لطف اٹھاتے ہیں تب یہ بھول جاتے ہیں کہ اسے ہماری پلیٹ تک پہنچانے میں نہ جانے کتنے لوگوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔ پھر چاہے دال چاول ہو یا پیزا برگر، یہ سب کچھ ہم تک پہنچانے کے لئے گاؤں میں محنت کش کسان دن رات پسینہ بہاتے ہیں۔ زراعت سے منسلک کاموں میں شروع ہی سے گاؤں کی خواتین نے اہم رول نبھایا ہے۔ فصل اُگانے سے لے کر اس کی کٹائی اور ذخیرہ جیسے کام تو وہ صدیوں سے کرتی آرہی ہیں، لیکن صنفی امتیاز کے سبب اب تک وہ حاشیہ پر ہی رہیں۔ بحیثیت کسان اپنی پہچان بنانے کے لئے وہ آج بھی تیز دھوپ اور بارش کی پروا کئے بغیر پورے جذبے کے ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی محنت رنگ لگانے لگی ہے۔
 آیئے ملتے ہیں زرعی شعبے سے جڑی ایسی خواتین سے، جنہوں نے خود اپنی پہچان بنائی ہے:
امرجیت کور (ادھویا، امبالا)
 میرے والد اپنے گاؤں کے خوشحال کسان تھے، لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ۱۲؍ ویں مکمل کرنے کے بعد مَیں نے کالج میں داخلہ لیا تھا، تبھی میرے والد بیمار رہنے لگے۔ کچھ وقت کے بعد وہ کھیتی کا کام کرنے کے قابل نہیں رہے، جس سے ہمیں مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب ایسا محسوس ہوا کہ مجھے ہی سب کچھ سنبھالنا ہوگا۔ چونکہ مَیں بچپن ہی سے اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں جاتی تھی، اس سے مجھے پہلے سے جو تھوڑی بہت معلومات تھی، اسی کی مدد سے کھیتوں پر کام شروع کر دیا۔ کئی مرتبہ تو صبح ۴؍ بجے ہی گھر سے نکل جاتی تھی۔ واپسی اکثر رات کو ہوتی تھی۔ واقعی وہ بہت مشکل دور تھا۔
 تقریباً ۱۵؍ ایکڑ زمین پر کھیتی کی ذمہ داری کا کام مَیں نے تنہا سنبھالا۔ شاید آپ کو یقین نہ ہو، مگر شروعاتی دور میں بغیر کسی مزدور کی مدد کے ٹریکٹر چلانے سے لے کر فصل بونے و کاٹنے جیسے سارے کام مَیں تنہا کرتی تھی۔ اب مَیں موسم کے مطابق گیہوں، مکئی اور گنے کی فضل کے علاوہ ہر طرح کی سبزیاں بھی اُگا لیتی ہوں۔ انہیں بازار تک پہنچانے کا کام بھی خود ہی کرتی ہوں۔ مَیں اپنے کھیتوں میں ۹۰؍ فیصد نامیاتی کھاد کا استعمال کرتی ہوں اور دیگر کسانوں کو بھی اس کے لئے آمادہ کرتی ہوں۔ اس سے پیداوار کو نقصان نہیں پہنچتا اور ماحولیات دوست بھی ہے۔
شمیمہ (مغربی بنگال)
 میرے شوہر کسان ہیں۔ صبح گھر کے سارے کام نبٹانے کے بعد کھیتی سے متعلق کاموں میں مَیں بھی ان کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ اس لئے اس کے بارے میں مجھے پہلے سے تھوڑی بہت معلومات تھی لیکن ۲؍ سال پہلے ہمارے گاؤں میں شہر سے کچھ لوگ آئے تھے۔ ان کی مدد سے مجھے تکنیکی طریقے سے آلو اُگانے کی تربیت ملی، جو میرے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس کے بعد اب مَیں ایک سیزن میں تقریباً ۱۲؍ ٹن آلو کی پیداوار کر لیتی ہوں۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۰ء میں مجھے ’عید مبارک‘ نامی ایک تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع بھی ملا، جس میں گاؤں کی خاتون کسان شامل ہوتی ہیں۔ اب مَیں اس تنظیم کے ذریعے گاؤں کی دیگر خواتین کو جدید طریقے سے کھیتی کرنے کی جانکاری دیتی ہوں۔ اب کمپنی کے لوگ سیدھے ہم سے آلو خریدتے ہیں، اس سے ہماری مالی حالت سدھرنے لگی ہے۔ آج کل میری بیٹی ڈاکٹر بننے کے لئے نیٹ ایگزام کی تیاری کر رہی ہے۔
سنتوش کھیدڑ (بیری، سیکر)
 مَیں گاؤں کی گھریلو خاتون ہوں، مگر میرے دل میں شروع ہی سے کچھ کرنے کی خواہش تھی۔ اسی لئے مَیں نے کٹنگ طریقے سے انار کی نئی آرگینک قسم پیدا کی۔ پھر ۲۰۰۸ء میں آرگینک فارمنگ شروع کی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ باجرہ اور گیہوں کی کھیتی سے لاگت کی بھرپائی تک نہیں ہو پاتی تھی۔ تبھی مَیں نے باغبانی میں ہاتھ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ہم کٹنگ کی جدید تکنیک سے انار، امرود، لیموں، مالٹا کے علاوہ کے پودے تیار کرکے انہیں مناسب قیمت پر کسانوں کو فروخت کرتے ہیں۔ عام طور پر کشمیر اور ہماچل پردیش میں سیب کی کھیتی ہوتی ہے، لیکن مَیں راجستھان کے موسم کے مطابق سیب کی بھی نئی نسل کی پیداوار کرلی ہے۔ پہلے سال میں کم لاگت کے باوجود اچھی کمائی ہوئی، تو میرا حوصلہ بڑھا۔ پھر کٹنگ تکنیک سے انار کے تقریباً ۲۰؍ ہزار پودے تیار کئے۔ اس سے بہت فائدہ ہوا۔ تب پودے کی فروخت بھی کرنے لگے۔ کھیتی و باغبانی میں ہی مجھے خوشی ملتی ہے اور یہی میرا جنون ہے۔ میرے بچوں نے بھی ایگری کلچر میں گریجویشن کیا ہے، اب وہ میری مدد کرتے ہیں۔ تقریباً ایک ایکڑ میں باغبانی کرکے سال بھر میں تقریباً ۲۰؍ لاکھ روپے کما لیتی ہوں۔ مَیں کسانوں سے یہی درخواست کرتی ہوں کہ وہ کیمیکل کا استعمال بند کرکے آرگینک فارمنگ اپنائیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK