Inquilab Logo

کورونا کے بحران سے نمٹنے کیلئےخواتین ہر محاذ پر کمر بستہ

Updated: September 22, 2020, 1:50 PM IST | Inquilab Desk

عصر حاضر میں کورونا وائرس کے سبب پیدا ہوئے حالات اورشدید معاشی بحران اچھے اچھوں کی کمر توڑ تا جارہا ہے۔ اس سنگین دور میں بھی خواتین دنیا کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور اپنی بلند ہمتی سے یہ پیغام دے رہی ہیںکہ کسی بھی غیر مر ئی وائرس کے سامنے وہ سر تسلیم خم نہیں کرسکتیں۔

Women
کورونا کے بحران سے نمٹنے کیلئےخواتین ہر محاذ پر کمر بستہ

  اکثر کئی لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ خواتین کی دنیا بہت چھوٹی  ہوتی ہے لیکن ہر دور میں صنف نازک نے اس گمان  سے بڑھ کر خود کوثابت کیا  ہے۔ ہر دور میں دگرگوںحالات میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں  کے بل  پر ایسے ایسے میدان سر کئے ہیں کہ جن پر فتح حاصل کرنا تنہا مرد حضرات کے بس کی بات نہیں تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ و جدول کے  مواقع  پر جہاںخواتین نے بھی تلوار تھام کر اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے تو وہیں زخمیوں کو پانی پلانے  اور ان کی تیمار داری کی ذمہ داری بھی اپنے نازک کندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ ایسی کئی مثالیں  تاریخ کے اوراق  میں محفوظ ہیں۔
  عصر حاضر میں کورونا وائرس کے سبب پیدا ہوئے  حالات شاید ہی ماضی میں کبھی رونما ہوئے  ہو۔صحت کے مسائل  کے ساتھ شدید معاشی بحران بھی اچھے اچھوں کی کمر توڑ تا جارہا ہے۔ ان  سنگین حالات میں بھی خواتین دنیا کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی  ہیں  اور  بلند ہمتی سے یہ پیغام دے رہی  ہیںکہ کسی بھی غیر مر ئی وائرس کے سامنے وہ سر تسلیم خم نہیں کرسکتیں۔ 
  آج ہم ا پنے اطراف کا جائزہ لیں تو امور خانہ داری کے ساتھ  طب ، تعلیم، کسبِ معاش، سیاست اور  مختلف میدانوں میں خواتین شجاعت و استقلال کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہیں۔ کہیں وہ ڈاکٹر، نرس،صفائی خادمہ بن کر اس متعدی دور میں تندہی  کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں تو کہیں سیاست  کے   شعبے میں   اپنی موثر  حکمت عملیوں  کے ذریعے اس وائرس کو مغلوب کرنےکیلئے کوشا ںہیں تو کہیں  اساتذہ کے روپ میں آن لائن تعلیم  کے ذریعے نئی نسل کی تعلیم میں تربیت میں مصروف ہیں۔
  ایک تحقیق میں بھی سامنے آیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے اندر اس  وائرس کے خلاف مزاحمت کی قوت زیادہ ہے۔ متاثرہ ہوکر شفایاب ہونے والوں کی شرح میں بھی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔  ۱۰۰؍ سال سے زیادہ کی عمر والی کئی  خواتین نے کامیابی سے وائرس کو زیر کیا ہے اور کئی خواتین صحتیاب ہونے کے بعد  اپنی حوصلہ افزا روداد   کے ذریعے سماج کے دیگر  لوگوں   میں ہمت پیدا کررہی ہیں۔ 
   خاتون خانہ کے بارے عام  تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ صرف گھریلو  کام کاج تک ہی محدود  رہتی ہیں  لیکن  موجودہ حالات میں انہوں نے بھی اپنی  غیر معمولی کاوشوں کے ذریعے   یہ دقیانوسی  بھرم بھی توڑ دیا ہے۔ لاک ڈائون کی پابندیوں کے دوران اور اس کے بعد  کے بحرانی حالات میں  ذرائع معاش کی جد و جہد  میں یہ خواتین اپنے گھر کے مردوںکا ہاتھ بٹاتی رہی ہیں۔ علاوہ ازیںلاک ڈائون کے ابتدائی ادوار میں جب خوردنی اشیاء کی قلت کے مسائل سامنے آئے تو انہوں نے  قناعت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کر تے  ہوئے معاملات کو بہ خوبی  سنبھالے رکھا اور بچوں کو بھی صابر بنائےرکھا ۔
  اتنا ہی نہیں جب مہاجر مزدوروں کی بڑے پیمانے پر ہجرت  ہوئی  تو ان بے چاروں کی بے بسی دیکھ کر کئی  خواتین اپنی  مادرانہ صفت کا مظاہرہ کرتے  ہوئے ان لوگوں کی  امداد کیلئے بھی کمر بستہ ہوگئیں۔  ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں کہ بھوکے پیاسے پیدل چلے رہے لوگوں کو راحت پہچانے کیلئے مختلف مقامات پر خواتین نے اپنے ہاتھوں سے پکائے  ہوئےکھانے  بھیجے اور دیگر فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔
  ایسی کئی خواتین بھی ہیں جن کے گھر کے مردوںکے کام کاج لاک ڈائون کے دوران ٹھپ پڑگئے یا ان کی نوکری چلی گئی تو ایسے حالات میں بھی ان    وفا کی پیکروں نے ہار نہیں مانی بلکہ کچھ خواتین نے گھر میں خوردنی اشیاء  تیارکر کے  انہیں اطراف میں فروخت کیا اور گھر کی چکی چلائی تو کچھ خواتین نے کپڑ ےاور دیگر اشیاء کے آن لائن بازار مزین کئے۔ اتنا ہی نہیں ایک شناسا نے گزشتہ دنوں ایک منفرد  واقعہ سنایا کہ لاک ڈائون کے دوران جب  ایک شخص کے کارخانے کے سارے مزدور آبائی وطن لوٹ گئےتو ان لاک کے بعد اسےکا م  بحال کرنے اور پرانے آرڈر نمٹانے میں بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے وقت اس کی اہلیہ ، ماں اور گھر کی دیگر خواتین اس  کی مدد کیلئے  آگے آئیںاور اپنے ہاتھوں سے بنائی، کڑھائی اور سلائی کے کام پورے کئے اور اب بھی  ہاتھ ہٹا رہی ہیں۔ آپ بازار میں بھی نظریں دوڑائیں تو کئی خواتین چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی خود انحصاری کا پیغام  دی رہی ہیں۔
  لاک ڈائون  کے آغاز  سے تاحال بیشتر کمپنیاں ورک فرام  ہوم کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ایسے میں خواتین کی  ذمہ داریاں دہری ہوگئی ہیں۔ وہ گھر کے تمام کام پائے تکمیل تک  پہچانےکےساتھ اپنے عزیزوں کو گھر سےکام کرنے دوران کوئی دقت نہ ہو اوران کی ہر ضروریات کا بھی پورا خیال رکھتی ہیں۔ 
  ملازمت پیشہ خواتین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیںہیں۔ گھریلو امور کے ساتھ دفتری کام مکمل کرنا آسان نہیں ہے۔  پھر بھی یہ جفاکشی  سے اپنی ذمہ دایاں ادا کررہی ہیں۔
  کورونا کے بحران سے نمٹنے میں نیوزی لینڈکی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن  ہو کیرالا کی وزیر صحت  ایس شیلجا یا پھر کوئی ملازمت پیشہ یا گھریلو خاتون  ان تمام کی جدوجہد لائق تحسین ہے۔
  خواتین کی شان میںعلامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ 
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں 
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اسکی 
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں 
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن 
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK