Inquilab Logo

بلوچستان میں ۴؍ سالہ بچی ڈکیتوں کے ہاتھوں زخمی، عوام میں ناراضگی

Updated: June 05, 2020, 9:11 AM IST | Agency | Islamabad

ڈکیت خود کو پولیس بتاکر گھر میں داخل ہوئے، دونوں ملزمین گرفتار،پھر بھی صوبے میں جگہ جگہ مظاہرے، سوشل میڈیا پر بھی احتجاجی مہم

Protest in Balochistan - Pic : PTI
بلوچستان میں ایک مظاہرے میں جمع لوگ تصویر: ایجنسی

پاکستان کے صوبے  بلوچستان کے دور دراز سرحدی علاقے کیچ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی چار سالہ بچی برمیش  ڈکیتوں کے ہاتھ زخمی ہو گئی جس کے بعد  بلوچستان میں منظم جرائم پیشہ گروہوں اور ان کی سیاسی طاقت کے بارے میں ایک ایسی بحث شروع کر دی ہے جس پر طویل عرصے سے دبے لفظوں میں بات  ہو رہی تھی ۔لیکن  اب عوامی سطح پر  بھی  اس تعلق سے کھل کر نارضگی ظاہر کی جا رہی ہے۔
 گزشتہ چند روز سے صوبے کے کئی علاقوں میں احتجاج ہو رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں اور سیاسی اور سماجی رہنما اس بارے میں بیانات جاری کر رہے ہیں۔ حالانکہ واقعے میں زخمی  چار سالہ برمیش  کا علاج جاری ہے اور اب وہ ٹھیک ہو رہی ہےلیکن اس کی ماں سے اس حملے میں ہلاک ہو چکی ہے جس کے سبب عوام میں اور بھی غصہ ہے۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار برمیش‘ کا ہیش ٹیگ چلا رکھا ہے۔ 
  واقعہ کیا ہے ؟
ایران سے متصل صوبے بلوچستان کے ایک  علاقے کیچ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں برمیش اپنی ماں کے ساتھ اپنے ماموں کے جاسم ہاں تھی ( جنہوں نے پولیس میں شکایت درج کروائی ہے) ۲۵؍ اور ۲۶؍ مئی کی درمیانی شب اچانک ان کے گھر  دو اسلحہ برداروں نے حملہ کر دیا اور گھر والوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا ۔دونوں ڈکیت خود کو پولیس والا بتا رہے تھے اور گھر کی تلاشی لینا چاہتے تھے  ۔ جاسم کے مطابق   جب اہل خانہ نے مزاحمت کی تو انہوں نے فائر کر دیا  جس میں برمیش کی ماں ملک ناز جو جاسم کی خالہ زاد بہن تھیں ہلاک ہو گئیں جبکہ برمیش زخمی ہوگئی۔ اس کے باوجود گھر کے لوگوں نے ان میں سے کو پکڑ لیا جس کا نام الطاف بتایا جا رہا ہے۔ دوسرا شخص فرار ہو گیا۔    پولیس کو فون کی گیا تو پولیس نے بھاگتے ہوئے ملزم کو بھی جلد ہی گرفتار کر لیا  جس کا نام سیف بتایا جا رہا ہے۔    حالانکہ دونوں ملزم اب پولیس تحویل میں ہیں اس کے باوجود ریاست میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں کیونکہ اس طرح کے واقعات اس صوبے میں ہوتے رہتے ہیں۔ گھروں کی تلاشی کے نام پر  لوٹ مار یہاں عام بات ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK