ڈاکٹر ڈی ایس رانا کے مطابق اسپتال کو ایک ہفتے سے قلت کا سامنا ہے لیکن سرکار کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے، آکسیجن کی فراہمی بھی نہیں ہو رہی ہے
EPAPER
Updated: April 25, 2021, 1:22 AM IST | New Delhi
ڈاکٹر ڈی ایس رانا کے مطابق اسپتال کو ایک ہفتے سے قلت کا سامنا ہے لیکن سرکار کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے، آکسیجن کی فراہمی بھی نہیں ہو رہی ہے
کورونا کے اس خوفناک بحران کے دوران اسپتال میں داخلہ ملنا بھی زندگی کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہے۔ ملک کے تمام اسپتالوں میں آکسیجن کی بھاری قلت ہے اور اس کی وجہ سے مریضوں کی جان جا رہی ہے۔ دہلی کےمشہور سر گنگا رام اسپتال میں گزشتہ ایک ہفتہ سے آکسیجن کی قلت ہے جس کی وجہ سے اسپتال کے چیئرمین کو یہ کہنا پڑ گیا ہے کہ ’’لگتا ہے سرکار انتظار کررہی ہے کہ ہم سب مر جائیں۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کے اسپتال کے پاس صرف ڈیڑھ گھنٹے کی آکسیجن باقی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز سر گنگا رام اسپتال میں آکسیجن کی کمی کے سبب ۲۵؍ مریضوں کی موت ہو گئی تھی۔ اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر ڈی ایس رانا نے بتایا کہ گزشتہ روز ۲۵؍مریضوں کی جان چلی گئی تھی ۔ ان کی موت صرف آکسیجن کی کمی سے نہیں ہوئی بلکہ دیگر وجوہات بھی تھیں لیکن آکسیجن نہ ملنے سے ان کی حالت خراب ہوئی اور وہ چل بسے۔ ہم ان حالات سے کیسے لڑیں سمجھ نہیں آر ہا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب مر جائیں گے بلکہ سرکار تو انتظار کررہی ہے کہ ہم سب مر جائیں۔‘‘
ڈاکٹر رانا نے بتایا کہ ’’فی الحال اسپتال کے پاس صرف چند گھنٹوں کی آکسیجن باقی ہے اور آکسیجن کا لیول نیچے گر رہا ہے، وینٹی لیٹر کو ہاتھ سےچلانا پڑ رہا ہے ۔‘‘ واضح رہے کہ گنگا رام اسپتال ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور اس کی گنتی راجدھانی کے سب سے بہترین اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ڈاکٹر رانا اس سلسلہ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کرچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے مرکز میں رابطہ قائم کیا لیکن وہ کہتے ہیں انہوں نے دہلی حکومت کو آکسیجن فراہم کر دی ہے اور اب دہلی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے کس طرح تقسیم کرتی ہے۔ مجھے اس طرح کے بے تکے جواب کی امید نہیں تھی۔ دہلی حکومت کو معلوم نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے۔ ہم نے رکن اسمبلی راگھو چڈھا سے رابطہ کیا، انہوں نے بھاگ دوڑ کر کے کچھ آکسیجن کا انتظام کیا، لیکن وہ ناکافی ہے۔‘‘
ڈاکٹر رانا نے کہا کہ ’’اب ہم کس سے رابطہ کریں؟ ہم نے نوڈل افسر کو فون کیا، کم از کم چار آئی اے اس افسروں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ جواب ہی نہیں دیتے ہیں اور جب جواب دیتے ہیں تو لاپروائی سے انکار کردیتے ہیں۔