Inquilab Logo

بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی ایک بڑی تعداد امدادکی منتظر، ہزاروں بے یارو مددگار

Updated: August 08, 2022, 1:30 PM IST | Agency | Quetta

سیلاب سے زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، ہزاروں ایکڑ رقبہ پرمشتمل کھڑی فصلیں سیلابی ریلوں میں بہہ گئیں، دھنیا، ٹماٹر، کپاس اور دیگر فصلیں برباد ہوگئیں

Near a makeshift camp for flood victims in Balochistan.Picture:INN
بلوچستان میں سیلاب متاثرین ایک عارضی کیمپ کے قریب۔ تصویر:آئی این این

پاکستان کے بلوچستان صوبہ میں سیلاب متاثرین کو اب تک امداد نہیں مل سکی ہے۔ اس دوران سیلاب سے زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔  ہزاروں ایکڑ رقبہ پرمشتمل تیار فصلیں سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہیں جس سے دھنیا، ٹماٹر، کپاس  اور دیگر فصلیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کوئٹہ کے علاقے سر کلی میں سیلاب متاثرین دو ہفتوں بعد بھی امداد سے محروم ہيں۔ متاثرین نے خود ہی تباہ شدہ گھروں کی تعمیر شروع کردی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق قومی ادارے کی  تازہ رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں بارش اور سیلاب سے مزید۶؍ افراد کی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ۲۴؍ گھنٹے کے دوران خضدار میں۴؍ مرد اور خاتون  جبکہ قلات میں ایک مرد  کے ہلاک ہونے کے بعد صوبے میں  مرنے والوں کی تعداد ۱۷۶؍ہوگئی۔مرنے   والوں میں کل۷۷؍ مرد،۴۴؍خواتین اور۵۵؍بچے شامل ہیں، حالیہ بارش سے۷۵؍ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلوں سے۴؍ ہزار۷۴۲؍ مکان منہدم   ہوگئےجبکہ ۱۳؍ ہزار۳۸۵؍ کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اس طرح مجموعی طو ر  ۱۸؍  ہزار۱۲۷؍ مکانوں کو نقصان بھی پہنچا۔ واضح رہےکہ سیلاب اور بارش کے  سبب  پاکستان  بھر میں۴۹؍ ہزار ۷۷۸؍  مکانات کو نقصان پہنچا ہے قلعہ سیف اللہ کی بستی مارپال کے شہری ایک ہفتے سے علاقے میں محصور ہیں۔ بارش سے سب کچھ برباد ہوگیا ہے۔ راستے بند ہونے کے سبب متاثرین تک کھانا پہنچا اورنہ  ہی پانی۔ جانور بھی پیاس سے نڈھال ہیں۔ اسی طرح نصیر آباد، جھل مگسی اور ڈیرا مراد جمالی  ساتھ ساتھ متعدد سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین امداد کے منتظر ہیں۔ مستونگ میں متاثرین نے امداد نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی۔ بارش سے توبہ اچکزئی کی بیشتر سڑکیں بھی برباد ہوگئیں۔ راجن پور میں دریائے سندھ میں بے نظیر برج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے دریا  سے متصل کچے  مکانات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ رود کوہی میں سیلاب سے متاثر ہونے والے سیکڑوں خاندان بے یارو مدد گار ہيں۔بلوچستان اور سندھ میں ہونے والی شدید بارش  سے دیگر پلوں کی طرح حب ندی کے پل کو بھی نقصان پہنچا تھا  ۔خبر لکھے جانے تک اس کی  مرمت کا کام  شروع نہیں ہو سکا ہے۔ بارش اور سیلاب سے حب ندی کا پل دو ہفتے سے ٹوٹا ہوا ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا جس  کے سبب اس  پل  پر آمدورفت بحال نہیں کی جا سکی  ہے۔ اس دوران حب سے کراچی جانے اور آنے والے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا  ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پل کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں۱۰؍ کلومیٹر کا اضافی  فاصلہ طے کر کے حب بائی پاس سے گزرنا پڑتا ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ حب ندی پل  پر  جلد از جلد آمدورفت  بحال کی جائے تاکہ ہم اس اذیت سے بچ سکیں۔  ادھر حکومت کا کہناہےکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن جاری ہے جبکہ وزیر اعظم نے امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دےدی ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کو فی کس۱۰؍ لاکھ کا امدادی چیک دیا جارہا ہے ۔ لسبیلہ کیلئے مزید امدادی سامان روانہ کردیا گیا۔ امدادی سامان میں خیمے، ترپالیں اور جنریٹرز شامل ہیں ۔ فلاحی تنظیموں کی جانب سے لسبیلہ اور کوئٹہ کے متاثرین کو راشن کی فراہم کیا جارہا  ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK