Inquilab Logo

کینیڈا میں منظورشدہ نیوزایکٹ کے مطابق گوگل کو صحیح آمدنی بتانی ہوگی

Updated: May 11, 2022, 1:31 PM IST | Agency | New Delhi

اس قانون کے سبب ہندوستانی اخبارات اور ان کے ڈیجیٹل نیوزایڈیشن کو فائدہ ملے گا

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

کینیڈین آن لائن نیوز ایکٹ حال ہی میں گوگل جیسے خبر رساں اداروں کی اجارہ داری اور پوزیشن کے غلط استعمال سے متعلق ایک معاملے میں منظور کیا گیا تھا۔ ہندوستانی اخبارات اور ان کے ڈیجیٹل نیوز ایڈیشن اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل نیوز پبلشرز اسوسی ایشن(ڈی این پی اے)، جو ہندوستانی نیوز پیپرس کی نمائندگی کرتی ہے، نے یہ بات کہی ہے۔کینیڈین آن لائن نیوز ایکٹ ایسے وقت میں پاس کیا گیا ہے جب ہندوستان میں سی سی آئی نے ڈی این پی اے کی طرف سے دائر کی گئی شکایت پر گوگل کو نوٹس جاری کیا ہے۔ گوگل پر الزام ہے کہ وہ اخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشن کے مواد پر اشتہارات سےاسےبھاری آمدنی ہوتی ہے لیکن وہ پبلشرز کے ساتھ معقول رقم نہیں بتاتا جس سے پبلشرز کو بھاری مالی نقصان ہو رہا ہے۔کینیڈیائی حکم میں نیوز پبلشرز کے ساتھ منصفانہ آمدنی بتانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ ڈی این پی اے نے کہا کہ کینیڈیائی حکم  ہندوستانی اخبارات اور ان کے ڈیجیٹل ایڈیشن کو فروغ دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم کمپیٹیشن کمیشن آف انڈیا (سی سی آئی) کو ایسا قدم اٹھانے کی حوصلہ افزائی اور بااختیار بنائے گا۔ 
سی سی آئی میں گوگل کے خلاف ڈی این پی اے  کی شکایت 
 ڈی این پی اے نے سی سی آئی میں الفابیٹ، گوگل، گوگل انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور گوگل آئرلینڈ لمیٹڈ (گوگل/او پی) کے خلاف کمپیٹیشن ایکٹ مجریہ ۲۰۰۲ء کی دفعہ۱۹(ا)(اے)  کے تحت شکایت درج کرائی تھی۔ اسوسی ایشن کا خیال ہے کہ گوگل نے ایکٹ کے سیکشن۴؍ کی خلاف ورزی کی ہے۔ سی سی آئی نے اس شکایت پر گوگل کے خلاف ڈیجیٹل اشتہارات میں اپنی اجارہ داری کا غلط استعمال کرنے پر انکوائری کا حکم دیا تھا۔
گوگل کے ذریعے۵۰؍فیصدسے زیادہ ٹریفک 
 اسوسی ایشن نے یہ بھی کہا کہ نیوز میڈیا کمپنیوں کے ذریعہ تیار کردہ مواد ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس پر اشتہارات چلائے جاسکتے ہیں ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نیوز ویب سائٹس پر کل ٹریفک کا۵۰؍ فیصد سے زیادہ گوگل کے ذریعے آتا ہے۔ اس میدان میں ایک بڑا کھلاڑی ہونے کے ناطے گوگل اپنے الگورتھم کے ذریعے فیصلہ کرتا ہے کہ سرچ کے ذریعے کون سی نیوز ویب سائٹ سامنے آئے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK