Inquilab Logo

افغانستان: ۲؍ خودکش حملوں میں۳۴؍ افراد لقمہ اجل

Updated: November 30, 2020, 10:15 AM IST | Agency | Kabul

صوبے غزنی میں فوجی اڈے پر بارود سےبھری گاڑی ٹکرا دی گئی ، صوبہ زابل میں بھی صوبائی کونسل کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا، مہلوکین کی تعداد بڑھ سکتی ہے

Ghazini Military Base - Pic : PTI
غزنی کے فوجی اڈے پر خودکش حملے کے بعد سیکوریٹی سخت کردی ہے۔( تصویر: پی ٹی آئی

 افغانستان کے غزنی صوبے  میں فوجی کمانڈو بیس اور صوبائی کونسل  سربراہ کے قافلے پر ہو ئے ۲؍ الگ الگ خود کش حملوںمیں مجموعی طور پر ۳۴؍ افراد ہلاک  اور ۳۶؍ سے زائد افراد  زخمی ہوگئے ہیں۔ حکام نے مہلوکین کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے خدشہ ظاہر کیا ہے۔دونوں خود کش حملوں کی ذمہ داری تا دم تحریر کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔
   مشرقی غزنی  کے فوجی اڈے پر  ہونے والا یہ خودکش حملہ چند ماہ کے دوران افغان  سیکوریٹی فورسیز پر خونریز ترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔صوبہ غزنیکی صوبائی کونسل کے ایک رکن ناصر احمد فقیری نے بھی اس خودکش حملوں میں ہلاکتوں کے اعدوشمار کی تصدیق کی ہے۔
 ذرائع کے مطابق غزنی کے فوجی اڈے میں بارود سے بھری ملٹری گاڑی داخل ہوئی اور رہائشی کمروں کے قریب زوردار دھماکے سے پھٹ گئی جس کے نتیجے میں ۳۱؍ فوجی ہلاک اور۲۴؍ اہلکار زخمی ہوگئے۔افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ خود کش حملے میں آرمی کی گاڑی کا استعمال نہیں کیا نہیں گیا لیکن  مقامی فوجی ذرائع نے  حملے میں ملٹری گاڑی   کےاستعمال کی تصدیق کی ہےافغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے بھی دھما کہ خیز مواد سے بھری گاڑی کے ذریعے  فوجی اڈے حملے کی اطلاع دی اور معاملے کی تفتیش جاری ہونے کی بات کہتے ہوئے مہلوکین کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ غزنی  اسپتال  کے ڈائریکٹر نے  خبر رساں ایجنسی  کو کہ ۲۶؍ افراد کی لاشیں اور ۱۷؍ زخمیوں کو  اسپتال لایا گیا ہے۔ان تمام افراد کا تعلق فوج سے ہے۔مقامی حکام کے مطابق دھماکے میں پبلک پروٹیکشن فورس کے اہلکاروں کے کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ فورس افغان سیکیوریٹی فورسیز کے ماتحت کام کرتی ہے۔
  مہلوکین  میں مزید اضافے کے خدشات
 حکام کا مزید کہنا تھا کہ اس کمپاؤنڈ کے قریب رہائشی آبادی بھی ہے۔ دھماکے کی شدت کے باعث  وہاں بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے  دھماکے کی شدت کی شدت کو دیکھتے ہوئے  جانی نقصان میں اضافہ  کے خدشات  ہیں۔
صوبائی کونسل کے سربراہ  حملے میںبال بال بچے
  وہیں دوسرا حملہ  صوبے زابل کے کونسل سربراہ کے قافلے پر بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں صوبائی کونسل چیف کے۳؍ محافظ ہلاک  اور بچوں سمیت۱۲؍ افراد زخمی ہوگئے۔ زابل کے پولیس سربراہ حکمت اللہ کوچائی   نےبتایا کہ کونسل کے سربراہ عطا جان حق بایت  حملے میں محفوظ رہے ، انہیں معمولی زخم آئےہیں۔ان کی  سیکوریٹی  مزید سخت کردی گئی ہے۔سیکوریٹی حکام کے  مطابق دہشت گرد وں کے ذریعے ایسے مزید حملوں کی منصوبندی کی اطلاعات ہیں۔
 امن کی کوششوں کےباوجود تشدد میںکمی نہیں
  قابلِ غور ہے کہ  یہ حملے ایک ایسے موقع پر  کئے گئے ہیں جب ملک میں۲؍ دہائیوں سے جاری  کشیدہ حالات کے خاتمے اور امن کی کوششیں کی جارہی ہے۔ چند روز قبل ہی افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی ہے ، بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کی جاری ہے۔
 البتہ ان مذاکرات میں کسی قسم کی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔    دعویٰ کیا گیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں افغان حکومت اور امر یکہ سمیت دیگر اتحادیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا  ہے۔ اس  کے باوجود گزشتہ چند ماہ کے دوران  ملک  بھر میں پرتشدد معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

 اقوام متحدہ کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

  گزشتہ دنوں ہی اقوامِ متحدہ  کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا ۔ افغانستان میں مختلف حملوں عام شہری بری طرح  متاثر ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں افغانستان کے تمام فریقوں پر  زور دیا گیا  کہ  تمام فریقین جنگ کے خاتمے  کیلئے مل کر کام کریں  اور عام  شہریوںکے تحفط کو یقینی بنائیں۔ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی امدادی مشن کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۰ء کے ابتدائی ۹؍ماہ  میں تشدد  کے مختلف واقعات میں۲؍ ہزار ۱۱۷؍ افغان شہری ہلاک  اور ۳؍ ہزار ۸۲۲؍ افرادزخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ۱۲؍ ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے وفود کے درمیان  مذاکرات کے آغاز سے  اب تک مختلف  حملوں میںعام شہریوں کی تعدادمیں کوئی کمی نہیں آئی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق مختلف فریقین  اور سیکوریٹی  فورسیز کی جھڑپوں میں بری تعداد میں عام شہری  ہلاک اور زخمی ہو ئےہیں۔رپورٹ کے مطابق ۲۳؍ فیصد شہری افغان سیکوریٹی فورسیز کی فضائی اور دیگر کاررائیوں  کے دوران  ہلاک  اور زخمی ہو ئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK