Inquilab Logo

ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے، زلزلے میں سب کچھ کھو دیا

Updated: June 27, 2022, 12:56 PM IST | Agency | Kabul

افغانستان کے تباہ کن زلزلے کے متاثرسید ولی کا بیان ،کہا :سچ پوچھئے تو ہم صرف زندہ ہیں مگر ہماری بات سننے والا کوئی نہیں اور ہمیں اب تک کوئی امداد نہیں ملی۔‘‘ افغان طالبا ن اور عالمی برادری کےخراب تعلقات کی قیمت متاثرین کو چکانی پڑ رہی ہے ،وعدے کے باوجود امداد نہیں پہنچ رہی ہے۔ حکومت کا بدترین زلزلے کے بعد اپنے منجمد اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ

Earthquake-affected people gather in a field to receive relief items..Picture:INN
ایک میدان میں زلزلہ متاثر ین امدادی اشیاء حاصل کرنے کیلئے جمع ہیں ۔ تصویر: آئی این این

 افغانستان کے تباہ کن زلزلے میں  ایک بڑی تعداد نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے،  ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔  اس کے باوجود ان کی مدد نہیں کی جار ہی ہے۔    دراصل افغان طالبا ن اور عالمی برداری کے خراب تعلقات کی قیمت   زلزلہ متاثرین چکا رہےہیں۔ اسی دوران افغان طالبان نے  بین الاقومی حکومتوں سے  اپنے منجمد اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اور عالمی اداروں کی امدادی سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں افغانستان کے مختلف صوبوں میں آنے والے زلزلے میں  ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس تباہ کن زلزمے میں گاؤں کےگاؤں اجڑ گئے ہیں اور املاک تباہ ہوگئی ہیں۔ 
 ایک زلزلہ متاثر کی بے بسی 
  اس سلسلےمیں ایک زلزلہ متاثرسید ولی   نے بتایا، ’’ زلزلے کا مرکز کابل  سے۲۰۰؍ کلومیٹر کے فاصلے والا مشرقی علاقہ تھا۔  میرا تعلق اسی علاقے سے ہیں ۔ یہاں زلزلے کا سب سے زیادہ اثر تھا ، اسی لئے ۔ ہمارے پا س کچھ بھی نہیں بچا  ہے ، زلزلے میں سب کچھ کھو دیا ۔سچ پوچھئے تو ہم  صرف زندہ ہیں مگر ہماری بات سننے والا کوئی نہیں اور ہمیں اب تک کوئی امداد نہیں ملی۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں بچا ہے‘‘
 ولی کے گاؤں کے اکثر مکان کچے تھے۔   واضح رہےکہ افغانستان کے اکثر دیہی علاقوں میں آج بھی کچے مکان ہی بنائے جاتےہیں۔  گزشتہ دنوں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ولی کے گاؤں  کے ایسے تقریباً  مکان تباہ ہوگئے۔ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ اس سلسلے میں  سید ولی کا کہنا تھا، `’’ہمارا بستر، سارا سامان، سب کچھ گھر کے ملبے  میں دب گیا۔ ہمارا گھر تباہ ہو گیا اور کچھ بھی نہیں بچا ہے۔‘‘
خطیر رقم کی ضرورت
  ولی نے یہ بھی بتایا، `’’ فی الحال ہمیں خطیر رقم کی ضرورت ہے تاکہ ہم ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء خرید سکیں۔ ہمیں آٹےاور چاول کے ساتھ ساتھ دیگر سامان جیسے بستر اور کپڑ ے تک کی ضرورت ہے۔‘‘
افغان حکومت کی عالمی برداری سے اپیل 
  ادھر افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقاہر بلخی نے کہا کہ امارت اسلامی دنیا سے کہتی ہے کہ افغانوں کو ان کے انتہائی بنیادی حقوق دیں جو ان کی زندگی کا حق ہے اور اس میں پابندیاں ہٹانے اور منجمد اثاثے بحال کرنے کے ساتھ ساتھ تعاون بھی شامل ہے۔ خیال رہے کہ رواں ہفتے افغانستان کے مشرقی صوبے میں۶ء۱؍ شدت کے زلزلے سے ۱۰؍ ہزار سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا تھا اور۲؍ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔زلزلے کے بعد افغانستان کے صحت کے ناقص نظام پر شدید دباؤ بڑھ گیا ہے اور طالبان حکومت بھی امتحان کا سامنا کررہی ہے۔  واضح رہے کہ افغانستان سے اگست۲۰۲۱ء میں غیرملکی فوج کے انخلاء اور طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد بیرون ملک سے ملنے والی ترقیاتی امداد روک دی گئی ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے  اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔افغانستان کے مرکزی بینک کے اربوں ڈالر منجمد کردیئے گئے اور پابندیوں سے بینکنگ کا شعبے بھی بدحالی کا شکار ہوا ہے۔  ایک سوال کے جواب میں عبدالقاہر بلخی نے کہا کہ افغانوں کی زندگی کے بچانے کے فنڈز کا حق ترجیح ہونی چاہئے۔ عالمی برادری کو مختلف شعبوں میں انسانی حقوق سے متعلق تشویش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ دنیا کا اصول ہے، کیونکہ امریکہ نے حال ہی میں انسداد اسقاط حمل قانون منظور کیا۔   اسی طرح دنیا کے ۱۶؍ممالک نے مذہبی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے حقوق ختم کردیئے ہیں، کیا وہ بھی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں ، حالانکہ وہ بھی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
 عالمی برادری بھی قصور وار 
 دوسری جانب وہائٹ ہاؤس کے ترجمان کیرین جین پیری کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت افغانستان کے عوام کے مفاد کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہی ہے، یہ فنڈ طالبان کیلئےنہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکی ایجنسی برائے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فلاحی اداروں کے ساتھ امداد فراہم کر رہی ہے۔ہلاکت خیز زلزلے کے بعد جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان اور متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کو امداد فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی طرف سے بھیجاگیا امداد سامان  پہنچ چکا ہے۔
 عالمی طاقتوںنے اپنے وعدوں اور  بیان کے باوجود زلزلہ متاثرین کی مدد میں سرگرمی دکھائی ہے اور نہ ہی افغان منجمد اثاثوں  جاری کرنے پر طالبان حکومت کو کوئی خاطر خواہ جواب دیا۔
 مانا جارہا ہے کہ  وسائل  اور فنڈ کی کمی سے گزشتہ برس اقتدار سنبھالنے والی طالبان حکومت کو امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  ایک ہزار سےزائد افراد کی ہلاکتوں کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ طبی سہولیات او ر دواؤں کی قلت کی وجہ سےملبے میں دبے افراد کی تلاش پہلے ہی روک دی گئی تھی۔  
  امدادی تنظیموں کا طالبان پر الزام 
  ادھرافغانستان کو امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں ماضی میں بھی یہ شکایت کرتی رہی ہیں کہ طالبان نے امداد کی تقسیم میں امتیاز کیا ۔  ان کے مطابق طالبان حکام کی کوشش رہی ہے کہ امداد ان افراد تک پہنچے جو ان کی   سرگرمیوں کی حمایت کرتے تھے۔  ان کے مطابق  بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ  افغان طالبان نے امدادی اشیاء اپنے قبضے میں لے کر انہیں خود تقسیم کیا اور اس عمل کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی۔ 
 طالبان کی  یقین دہانی
  صوبے پکتیکا کے ایک سینئر اہلکار خان محمد احمد کے مطابق اب امدادی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹانے والی بین الاقوامی تنظیموں کو امداد کی تقسیم میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ طالبان ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔  خان محمد احمد کا کہنا تھا،’’چاہے ڈبلیو ایف پی ہو، یونیسیف ہو یا کوئی اور ادارہ، بین الاقوامی برادری ہو یا اقوام متحدہ، یہ سب اپنی امدادی اشیاء خود تقسیم کریں گے۔‘‘ خان محمد احمد نے طالبان کی طرف سے افغانستان کو دیئےگئے نام ’امارت اسلامی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ ہمارے’ امارات اسلامی‘ کے اراکین ان کے ساتھ ہوں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK