Inquilab Logo

بائیڈن کے بعد پوتن بھی یوکرین جنگ ختم کرنے پر بات چیت کیلئے تیار

Updated: December 03, 2022, 11:28 AM IST | Moscow

کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف کا دعویٰ، ساتھ ہی کہا کہ روس ،یوکرین سے دستبردار نہیں ہوگا،امریکہ کے سامنے نئے علاقوں کو روس کا حصہ تسلیم کرنے کی شرط بھی رکھی

Ukrainian soldiers can be seen firing missiles from a special vehicle towards Koros. If both leaders agree, this war can be stopped; Photo: INN
یوکرینی فوجی کوروس کی جانب خصوصی گاڑی کے ذریعہ میزائل داغتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔دونوں لیڈر راضی ہوجاتے ہیں تو یہ جنگ بند ہوسکتی ہے؛تصویر :آئی این این

 کریملن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہےکہ روسی صدرولادیمیر پوتن یوکرین میں تنازع کےممکنہ تصفیے پربات چیت کیلئےتیار ہیں اوروہ ایک سفارتی حل پر یقین رکھتے ہیں۔جو بائیڈن کی طرف سے روسی لیڈرسےبات کرنے کیلئے تیار ہونےکی تجویز کے بعد کریملن نے جمعہ کواعلان کیا۔ واضح رہے کہ جو بائیڈن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروںکےساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پوتن کے پاس یوکرین میں جنگ ختم کرنے کا واحد راستہ وہاں سے فوجوں کو نکالنا ہے اور اگر پوتن تنازع کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بائیڈن کریملن کے سربراہ سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔کریملن کےترجمان دمتری پیسکوف سے جب بائیڈن کے تبصرے کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نےسخت لہجے میں کہا کہ پوتن مذاکرات کے لیےتیار ہیں لیکن روس یوکرین سے دستبردار نہیں ہوگا۔پیسکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا،’’روسی فیڈریشن کے صدر ہمارے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے ہمیشہ مذاکرات کیلئےتیار رہے ہیں، ہیں اور رہیں گے۔‘‘پوتن نےکہا ہے کہ انہیں یوکرین کے خلاف روس کے ’خصوصی فوجی آپریشن‘کے آغاز پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، انہوں نے اسے ایک ایسے لمحے کے طور پر پیش کیا جیسے کہ روس۱۹۹۱ءکےسوویت یونین کےزوال کے بعد کئی دہائیوں کی رسوائی کے بعد بالآخر مغربی تسلط کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ 
 یوکرین اور مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ پوتن کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں ہےکہ وہ اسے سامراجی طرزکی قبضے کی جنگ کے طور پرپیش کریں۔ یوکرین کاکہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑے گا جب تک آخری روسی فوجی کو اس کی سرزمین سے نہیں نکالا جاتا۔
 روس نے سوویت یونین کے بعد کے یوکرین کے تقریباً پانچویں حصے پر دعویٰ کیا ہے، مغرب اور یوکرین کے الحاق کو وہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔ پیسکوف نے کہا کہ امریکہ کا ’نئے علاقوں‘کو بطور روسی تسلیم کرنےسے انکار کسی بھی ممکنہ سمجھوتے کی تلاش میں رکاوٹ ہے۔
 یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بائیڈن جس طرح سے ممکنہ رابطوں کو تشکیل دے رہے تھے اس کا مطلب یہ ہےکہ روسی نقطہ نظر سے مذاکرات ناممکن ہیں، پیسکوف نے کہا کہ ’’حقیقت میں، بائیڈن نے یہی کہاہے۔انہوں نے کہا کہ پوتن کے یوکرین چھوڑنے کے بعدہی مذاکرات ممکن ہیں۔‘‘ پیسکوف نے کہا کہ کریملن اسے قبول نہیں کر سکتا اور یوکرین میں روسی فوجی کارروائی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا ’’لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہوں گاکہ صدر پوتن ملاقات اور مذاکرات کے لیےتیار ہیں رہے ہیں،ہیں اور رہیں گے۔ یقیناً، ہمارے مفادات کےحصول کا سب سے بہتر طریقہ پرامن، سفارتی ذرائع سے ہے۔ ‘‘
 واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکہ کے صدر جو بائڈن نے کہا ہے کہ اگر روس کے صدر ولادی میر پوتن یوکرین میں جنگ ختم کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں تو میں ان کے ساتھ ملاقات کے لئے تیار ہوں۔
 واضح رہے کہ فرانس کے صدر امانوئیل میکروں کے دورہ امریکہ کے موقع پروہائٹ ہاؤس میں دو طرفہ ملاقات کےبعد صدورنےمشترکہ پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔پریس کانفرنس میں یوکرین کی عسکری امداد جاری رکھنے کا موضوع دونوں صدور کے ایجنڈے پر تھا۔کانفرنس سے خطاب میں صدر بائیڈن نےکہا تھا کہ ’’جنگ ختم کرنے کا واحد عقلی راستہ یہ ہےکہ پوتن  یوکرین سے فوجیں نکال لیں۔ پوتن اس راستے کو مستردکرنے کا نہ صرف خود بہت بھاری بدلہ چُکا رہے ہیں بلکہ یوکرین میں بھی وسیع پیمانے پر تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا ہے کہ’’ میرا ،پوتن سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے  لیکن اگر وہ جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو میں ان کے ساتھ ملاقات کیلئےتیار ہوں۔ تاہم فی الحال وہ ایسےکسی راستے کی طرف جاتے دِکھائی نہیں دے رہے۔اگر ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو میں فرانس اور دیگر نیٹو اتحادیوں کے ساتھ رابطے میں رہ کر پوتن کے ساتھ ملاقات کروں گا اور ان کی نیت بھانپنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
 واضح رہے کہ اس تنازعہ کی وجہ سے دونوں طرف سے دسیوں ہزار فوجی مارے گئے ہیں۔ ۱۹۶۲ءمیںہونے والےکیوبا کے میزائل بحران کے بعدسے ماسکو اور مغرب کے درمیان سب سے بڑا تصادم ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK