Inquilab Logo

اسرائیل کو امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ منظور نہیں

Updated: April 09, 2021, 1:49 PM IST | Agency | Tel Aviv-Yafo

صہیونی ریاست کے وزیراعظم نے نہ صرف اس معاہدے کو ’خطرناک ‘قرار دیا بلکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کیلئے ’تمام متبادل‘ استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی۔ نیتن یاہو نے جوہری ہتھیار کے حامل ایران کو اپنے آپ میں ایک خطرہ بتایا ، جبکہ اسرائیل کے پاس ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول سے باز رکھنے کی طاقت ہونے کا دعویٰ بھی کیا

Benjamin Netanyahu. Picture:Agency
اسرائیلی زیر اعظم نیتن یاہو ایران کے ساتھ معاہدہ تو دور مذاکرات کے بھی روادار نہیں ہیں۔ تصویر: ایجنسی

  ایک طرف جہاں عالمی طاقتیں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی حتی الامکان کوشش کر رہی ہیں تو دوسری طرف صہیونی ریاست اسرائیل امریکہ کو کسی طرح اس معاہدے سے باز رکھنے کی کوشش میں ہے ۔  آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں  چین، روس، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ یورپی یونین کے نمائندوں کی موجودگی میں جب  امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ منگل کو ہونے والی پہلی گفتگو کامیاب رہی تو ہر کسی نے اس کی پذیرائی کی لیکن اسرائیل نے ان مذاکرات پر ناخوشی ظاہر کی۔ بد عنوانیوں کے الزام کا سامنا کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن  یاہو نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ  ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی راہ ہموار کرنے والے کسی معاہدے کی پابندی نہیں کریں‌ گے۔اتنا ہی نہیں انہوں نے تقریباً دھمکاتے ہوئے کہا کہ ’’اسرائیل کے پاس ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لئے تمام متبادل کھلے ہوئے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے یہاں’ متبادل‘ سے مراد ایرانی تنصیبات پر حملہ کرنا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنی ’لیکوڈ پارٹی‘  کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔  انہوں نے کہا کہ ’’ خطرہ یعنی ایران واپس آ رہا ہے، اور اس بار عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے ساتھ۔ اس کیلئے  ایک ایسا راستہ کھولا جا رہا ہے (جوہری معاہدے کے ذریعے)  جس کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کا خطرہ ہمارے دروازے تک اگلے ہی دن پہنچ جائے گا۔‘‘ انہوں نے جوہری معاہدے کے تعلق سے کہا ’’ ہم اس خطرناک پلان کی طرف دوبارہ نہیں جا سکتے  کیونکہ ایک ’جوہری ایران‘  اپنے آپ میںایک خطرہ ہے اور یہ ساری دنیا کیلئے خطرناک ہے۔‘‘  ساتھ ہی نیتن یاہو کو طاقت کے استعمال کے ذریعے  ایران کو  جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھنے کی دھمکی بھی دی۔ یاد رہے کہ یہ اسرائیل تھا جس کے کہنے پر ۲۰۱۸ء میں اس وقت کے امریکی صدر  ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا تھا۔ اس بار جو بائیڈن کی جانب سے ایران کے ساتھ گفتگو کے معاملے میں پیش رفت کی بھی  اسرائیل  نے سخت مخالفت کی تھی ۔  
 مذکرات میں کیا ہوا؟
  ادھر ویانا مذاکرات میں ایران کی نمائندگی کرنےوالے عباس عراقچی نے  آئندہ بھی مذاکرات میں شامل ہونے کا مثبت اشارہ دیا ہے۔ مذاکرات کے بعد ماہرین کی دو ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جنہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کی فہرست تیار کریں جنہیں اٹھایا جانا چاہئے ۔ساتھ ہی ان ٹیموں کو ایران کیلئے جوہری معاہدے  پرعمل درآمد کا طریقہ کار وضع کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔ برطانوی ، فرانسیسی اور جرمن عہدیدار ویانا کے دو الگ الگ ہوٹلوں میں مقیم امریکی اور ایرانی وفود  کے ساتھ مابین تبادلۂ خیال کریں گے ۔ امکان ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جائے جو کہ اسرائیل کو نامنظور ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK