Inquilab Logo

بابری مسجد کیس: ناکافی شواہد، تمام ملزمین بری، مسلم تنظیموں کا اپیل کا فیصلہ

Updated: October 01, 2020, 9:06 AM IST | Jeelani Khan Aleeg / INN | Lucknow

زمین رام مندر کودینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے محض  ۱۱؍ ماہ بعد لکھنؤکے سی بی آئی کورٹ نے مسجد کی شہادت کے الزام سے اڈوانی ، جوشی ، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت تمام۳۲؍ ملزمین کو بری کردیا، ۲۸؍ سال کا انتظار۳؍ منٹوں میں بے معنی ہوگیا، شہادت کو سازش کا نتیجہ تسلیم کرنے سے کورٹ کا انکار ، انہدام کو بھیڑ کا فوری ردعمل قراردیا، ملزمین کو کلین چٹ دی کہ وہ بھیڑ کو اکسانہیں ، سمجھارہے تھے

Lucknow High Court - Pic : PTI
لکھنؤ ہائی کورٹ کے احاطہ میں ہی سی بی آئی کی عدالت واقع ہے۔فیصلہ کے پیش نظر سیکوریٹی سخت کردی گئی تھی ۔ (تصویر : پی ٹی آئی

سی بی آئی کی خصوصی عدالت  نے  ناکافی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے  ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی سمیت  بابری مسجد شہادت کیس کے تمام۳۲؍ ملزمین کو بری کردیا ہے۔  بابری مسجد ملکیت کیس میں مسجد کی زمین رام مندر کیلئے دینے کے سپریم کورٹ کے  فیصلے کے محض ۱۱؍ماہ بعد سنائے گئے اس فیصلے  پر بھی  حیرت اور مایوسی کااظہار کیا جارہاہے۔ مسلم تنظیموں  نے فیصلے  کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا عندیہ دیا ہے جبکہ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ محکمہ قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد  اس بات کافیصلہ کریگی کہ لکھنؤ کے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے یا نہیں۔
اہم ثبوت مسترد، ناکافی شواہد کی بنیاد پر فیصلہ
  اپنی سبکدوشی کے دن سنائے گئے  فیصلے میں سی بی آئی کے خصوصی  جج  ایس کے یادو  نے کہا ہے کہ ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ ساتھ ہی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مسجد کی شہادت کسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اکٹھا ہونے والی بھیڑ کا فوری ردعمل تھا۔ کورٹ  نے وکلائے دفاع کی اس دلیل کو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ملزمین نے کارسیوکوں کو مسجد کے انہدام پر اکسایا نہیں تھا بلکہ وہ تو انہیں روک رہے تھے۔ 
    بابری مسجد کی شہادت کے وقت کے ویڈیوز کو مسترد کرتے ہوئے کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ فورنسک لیباریٹری سے  ان کی صداقت کی تصدیق نہیں کروائی گئی اس لئے انہیں بطور ثبوت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی تفتیشی ایجنسی نے جو ویڈیو فوٹیج پیش کئے ہیں ان سے چھیڑ چھاڑ کی پوری گنجائش ہے کیونکہ یہ سیل بند نہیں ہیں۔اسی طرح کورٹ نے اس وقت کے اخبارات کی رپورٹوں کو بھی بطور ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
 ملزمین کے وکیل  دفاع منیش ترپاٹھی کے مطابق مسجد کی شہادت کے وقت کی جو تصاویر سی بی آئی  نے پیش کیں  انہیں کورٹ  نے مسترد کردیا کیوں کہ تفتیشی ایجنسی ان کے اصل نگیٹیو پیش نہیں کرسکی۔عدالت نے کہا ہے کہ وی ایچ پی کے آنجہانی صدر اشوک سنگھل عمارت کو بچانا  چاہتے تھے کیوں کہ  رام کی مورتی اس کے اندر تھی۔ 
۲۸؍ سال کا انتظار ۳؍منٹوں میں  بے معنی
 ۲۸؍ سال کے انتظار کو محض ۳؍ منٹ میں ختم کرتے ہوئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے بدھ کو دوپہر ۲؍ بجکر ۱۵؍ منٹ پراپنا فیصلہ سنایا۔ان کے مطابق استغا ثہ یعنی سی بی آئی  مقدمے کی شنوائی کے دوران پیش کئے گئے شواہد سے ۳۲؍ ملزمین  کے رول کو ثابت نہیں کر سکی۔ با بری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے والے سپریم کورٹ کے متنازع فیصلے  کے محض ۱۱؍ مہینے بعد آنے والے اس فیصلے  نے   ان تمام لوگوں کو بے قصور قرار دے دیا جنہوں نے  رام جنم بھومی تحریک میں کلیدی رول ادا کیا۔ یاد رہے کہ بابری مسجد کی شہادت اسی تحریک کا نتیجہ تھی۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کی تعمیر کیلئے دینے کے اپنے فیصلے میں  بہرحال یہ تسلیم کیاتھا کہ مسجد کی  شہادت ایک غیر قانونی عمل تھا ۔ سی بی آئی کورٹ کے مطابق کسی بھی گواہ نے ملزمین کے خلاف ایسی گواہی نہیں  دی جس سے ثابت ہو  کہ انہوں   نے بھیڑ کو اکسایاتھا۔
کورٹ کو کوئی مجرمانہ  سازش نظر نہیں آئی
 اپنے ۲؍ ہزار۳۰۰؍ صفحات پر مشتمل فیصلے میں کورٹ نےکہا ہے کہ مسجد کی شہادت منصوبہ بند نہیں تھی۔جسٹس یادو کے مطابق،بابری مسجدکا انہدام کسی منظم منصوبہ یا سازش کا نتیجہ قطعی نہیں تھا بلکہ یہ اس وقت وہاں موجود لوگوں کےغصہ اور اچانک رد عمل کے سبب ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ تصویروں کی بنیاد پر بھی کسی کو مجرم نہیں مانا جا سکتا۔ جسٹس ایس کے یادو نے یہ بھی کہا کہ سادھوی رتمبھرا کی تقریر کے ویڈیوز پیش تو کئے گئے ہیں مگر یہ سیل بند نہیں تھے اس لئے اسے واضح ثبوت نہیں مانا جاسکتا۔ عدالت نے کہا کہ اخبارات میں شائع رپورٹس کو مستند ثبوت نہیں مانا جاسکتا کیونکہ ان کی اصلیت پیش نہیں کی گئی۔ فوٹو کےنگیٹو بھی پیش نہیں کیے گئےاور نہ ہی ویڈیو فوٹیج واضح ہیں، کیسٹس سیل نہیں کئے گئے تھے۔جن لوگوں نے ڈھانچے کو توڑا ان کے اور ملزمین کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں تھا۔
سی بی آئی  کا  ماہرین سے تبادلہ خیال کافیصلہ
  سی بی آئی کے وکیل للت سنگھ نے کہا ہےکہ فیصلے کی کاپی ملنے کے بعد سی بی آئی ہیڈ کوارٹر بھیجا جائے گا ، جس کے بعد قانونی پہلوئوں پر ماہرین سے تبادلہ خیال کرکےفیصلے کو چیلنج کرنے نہ کرنے سے متعلق آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
 ناانصافی کی تاریخ میں ایک اور مثال
 مسلم پرسنل لاءبورڈکے جنرل سیکریٹری مولانا ولی رحمانی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں شواہد، انصاف، قانون کسی کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا۔یہ فیصلہ اسی ذہنیت کا غماز ہے جو موجودہ مرکزی حکومت کی ہے اور جس کااظہار بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کرچکے ہیں۔(تفصیلی رپورٹ صفحہ ۴؍ پر دیکھیں)
 مسجد کی شہادت کےخلاف ایف آئی آر درج کرانے والے اجودھیا کے شہری حاجی محبوب نے اظہار مایوسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ملزمین کھلے عام کہتے رہے ہیں کہ انہیں اس پر فخر ہے پھر بھی انہیں کلین چٹ دے دینا سمجھ سے پرے ہے۔بیحد مایوس لہجہ میں انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جو بھی ہورہا ہے اچھا ہی ہورہا ہے۔انہوں نے بھی یہ شارہ کیا ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ 

 متھرا کی عیدگاہ کیخلاف مقدمہ خارج

یہاں سو ِل کورٹ  نے متھرا کی عیدگاہ مسجد کے  خلاف داخل کی گئی پٹیشن کو خارج کردیا ہے۔ مذکورہ پٹیشن میں دعویٰ کیاگیاتھا کہ چونکہ شاہی عیدگاہ مسجد کرشن جنم بھومی   پر بنی ہوئی ہے اس لئے اسے ہٹایا جائے۔ 
 کورٹ نے اس معاملے کو شنوائی کے لائق ہی نہیںسمجھا اور کہا ہے کہ اس  پر شنوائی کی خاطر خواہ بنیاد موجود نہیں ہے۔ عدالت نے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے ۱۹۹۹ء کے ’پلیس آف ورشِپ ایکٹ‘کا حوالہ دیا جو اس بات کی ضمانت  دیتا ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جس عبادت گاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی اسے محفوظ رکھا جائے گا۔    بابری مسجد  کے معاملے کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔سوِل کورٹ کے اس فیصلے کے بعد عرضی گزار نے اس معاملے میں  الہ آباد ہائی کورٹ  سے رجوع ہونے کافیصلہ کیا ہے۔ ایڈوکیٹ ہری شنکر اور وشنو جین کے ذریعہ داخل کی گئی پٹیشن  میں دعویٰ کیا ہے کہ جس زمین پر شاہی عید گاہ مسجد تعمیر ہےاس کی ایک ایک انچ ہندوؤں کیلئے مقدس ہے کیوں کہ یہ زمین کرشن کی جائے پیدائش ہے۔ ۱۳ء۳۷؍ زمین پر یہ دعویٰ ’’بھگوان شری کرشن وراج مان‘‘ کی جانب سے داخل کیاگیاہے۔ واضح رہے کہ عید گاہ مسجد مندر سےمتصل ہے اور عرصے سے اس  کے تعلق سے شرپسندی ہورہی ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK