Inquilab Logo

آج انصاف کا خون ہوا ہے اور آزاد ہندوستان کا دوسرا سیاہ دن ہے

Updated: October 01, 2020, 9:33 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

ملی تنظیموں کاشدید رد عمل،کہا:۱۰؍ماہ قبل سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ عمل قرار دیا تھا تو آخر عدالت کو کوئی سازش کیوں نظر نہیں آئی۔ایسے فیصلوں سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوگا

Babri Masjid - Pic : INN
بابری مسجد کے انہدام کے وقت کی تصویر

بابری مسجد انہدام کیس سے ان ملزمین کو جنہوں نے اپنے مذموم، گھٹیا اور بیہودہ عمل سے جمہوریت کو شرمسار کیا تھا،کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعے بدھ کو بری کردیا گیا۔ عدالت کے اس فیصلے پر ہر انصاف پسند حیران ہے۔ ملی تنظیموں کے نمائندوں نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسے انصاف کا خون قرار دیا۔ 
 جمعیۃ علماء، قانونی امداد کمیٹی کے سیکریٹری گلزار اعظمی نے کہا کہ آج انصاف کا خون ہوا ہے اور آزاد ہندوستان کا آج دوسر ا سیاہ دن ہے۔
 انہوں نے مزید کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت وہاں ایک لاکھ سے زائد لوگ موجود تھے اور ان کے ہاتھوں میں پھاؤڑا، رسی اور دوسری چیزیں تھیں۔ آج فیصلے میں یہ کہا گیا کہ کوئی سازش نہیں رچی گئی۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دلتوں اورمسلمانوں کو اس ملک میں انصاف ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ 
 رضا اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری محمد سعید نوری نے کہا کہ یہ فیصلہ یک طرفہ ہے اور ملزمین نے فیصلے کے بعد اپنی رائےکے اظہار سے عدلیہ پر زناٹے دار تھپڑ لگایا ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد، کے ملزمین چیخ چیخ کر فخریہ انداز میں اعلان کر رہے تھے کہ ہم نے بابری مسجد شہید کی اس کے باوجود عدالت نےاقبالی مجرموں کو بھی چھوڑ دیا۔ ایسے فیصلوں سے عدلیہ کے تعلق سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوگا۔ 
 آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی نائب صدر عظمی ناہید نے کہا کہ فیصلہ تو آگیا لیکن دنیا جانتی ہے کہ قصوروار کون ہے۔ہمارے لئے مسجد زیادہ اہم تھی وہ تو چلی گئی لیکن ہمیں یقین ہے کہ ایک اور سب سے بڑی عدالت ہے جہاں دنیا کے ہر جج کا فیصلہ ہوگا۔ 
 علماء کونسل کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود دریابادی نےکہا کہ نچلی عدالت سے تمام ملزمین بری کر دیے گئے، اگر بری نہ کیے گئے ہوتے تو کیا ہوتا۔ بابری مسجد تو ہمارے ہاتھ سے چلی گئی۔۲۸؍سال میں تقریباً ایک تہائی ملزمین  مر چکے باقی جو ہیں وہ بھی قریب المرگ ہیں۔ سیاسی طور پر تو سبھی نشان عبرت بن چکے ہیں۔ اگر انہیںسزا ہوجاتی تو زیرو بن گئے لوگ پھر ہیرو بن جاتے۔ ہاںتمام ملزمین کےبری ہوجانے سے ساری دنیا کے سامنے ہمارے یہاں انصاف کا ’بول بالا‘ تو ظاہرہوگیا۔ 
 جماعت اسلامی کے مقامی امیر عبدالحسیب بھاٹکر نے کہا کہ پہلے تو۲۸؍سال کے بعد آنے والے اس فیصلے سے انصاف کا خون ہوا ہے دوسرے حیرت کی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے ۱۰؍ماہ پہلے سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کو مجرمانہ عمل قرار دیا اس کے باوجود نچلی عدالت نےسازش ماننے سے ہی انکارکر دیا۔ سوال یہ ہےکہ اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی اور دیگر ملزمین نےآخر کس کو بھڑکایا اور اشتعال دلایا تھا۔ اس کے علاوہ مل جل کر اس سلسلے میں آگے بڑھا جائے گا۔‌
 مولانا عبدالجلیل مکی (جمعیت اہل حدیث ممبئی نائب ناظم) نے کہا کہ ہم اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور عدالت نےانصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا ہے۔جن مجرموں نےبابری مسجد شہید کی تھی اور اعتراف بھی کیا تھا ان کو کن بنیادوںپرچھوڑ دیا گیا۔ ہم سب مل کر اس معاملے کو اور آگےبڑھائیں گے۔
 ایم اے خالد (ملی کونسل کے عہدیدار )نے کہا کہ فیصلہ توہوگیا انصاف کب ہوگا۔ جس سانحہ کو پوری دنیا نے دیکھااس کے بارے میں عدالت کایہ کہنا کہ ملزمین کے تعلق سے ثبوت نہیں ملا افسوسناک ہے۔ آخر بابری مسجد پھرکیسے شہید ہوئی اور اتنی طویل مدت تک کیس کس بنیاد پر چلایا گیا۔ 
 مولانا نوشاد صدیقی (امام الہند فاؤنڈیشن) نے کہا کہ جس طرح کےحالات پیدا کیے گئے تھے اور سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اس سے یہ اندیشہ تھا کہ ایسا ہی فیصلہ آئے گا اور بالآخر۳۲؍ ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ 
 محمد ابراہیم طائی (مسلم کونسل ٹرسٹ) نے کہا اور یہ پیغام بھی بھیجا کہ بابری مسجد، اللہ ترے گنہگاروں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ 
 ڈاکٹرعظیم الدین( ایم ایچ ڈبلیو )نے کہا کہ یہ انصاف کا خون ہوا ہے اور اس فیصلے کے ذریعے ہندوتوا کی چاپلوسی کی گئی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عدالتیں فیصلہ سنانے کے بجائے حکومت کے اشارے کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK