Inquilab Logo

مغربی کنارے میں صہیونی فوج کی جبری انہدامی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے پر لاٹھی چارج اور گولی باری

Updated: July 01, 2021, 9:27 AM IST | Jerusalem

اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی فلسطین میں صہیونی فوج کی زیادتیاں جاری ہیں

A Palestinian woman near her collapsed house (Agency)
ایک فلسطینی خاتون اپنے منہدم شدہ مکان کے پاس (ایجنسی)

 اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی  فلسطین میں صہیونی فوج کی زیادتیاں  جاری ہیں۔ منگل کو اسرائیلی فورس نےمغربی کنارے کے  قریب واقع علاقے البوستان میں فلسطینیوں کی دکانوں اور مکانوں کو مسمار کرنے کا کام  شروع کیا۔  اسرائیلی فوج بلڈوزر لے کر علاقے میں داخل ہوئی اور ایک قصائی کی دکان کو منہدم کرنا شروع کیا۔ اس دوران فلسطینیوں نے احتجاج کیا تو  فوج نے  آنسو گیس اور لاٹھیوں سے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ 
 الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے آتے ہی ان پر لاٹھیوں اور آنسو گیس کے ذریعے حملہ شروع کر دیا۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس انہدام کی شروعات ہی تشدد کے ساتھ کی گئی۔ اور ایسا صرف ایک دکان کے ساتھ نہیں کیا گیا ۔ علاقے میں تقریباً ۲۰؍ دکانیں ہیں جنہیں اسی طرح منہدم کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر  ربڑ کی گولیاں بھی چلائیں جو  اس تشدد کے خلاف احتجاج کر رہے تھے یا مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے لوگوں کو وہاں جمع ہونے کی اپیل کر رہے تھے۔ 
  واضح رہے کہ گزشتہ ۷؍ جون کو  مغربی کنارے کے سلوان شہر کی میونسپلٹی نے  ایک حکم جاری کیا تھا جس کے مطابق یہاں کی کوئی ۱۳؍ فلسطینی  خاندانوں  کو یہ نوٹس دیا تھا کہ وہ ۲۱؍ دنوں کے اندر اپنے مکانات خالی کرکے انہیں منہدم کردیں ۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو   ان کےمکانات اسرائیلی فوج خالی منہدم کرے گی اور اس انہدامی کارروائی پر جو بھی خرچ آئے گا وہ ان خاندانوں سے وصول کیا جائے گا جو کہ فی مکان ۶؍ ہزار ڈالر (تقریبا سوا ۴؍ لاکھ ہندوستانی روپے) ہوگا۔  ۲۸؍ جون کو یہ میعاد پوری ہو گئی اور  فوج نے ان دکانوں اور مکانوں کو منہدم کرنا شروع کر دیا۔اس کارروائی سے ۱۳؍ خاندانوں  کے کوئی  ۱۳۰؍ افراد متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس انہدام کے تعلق سے اسرائیلی قانون ایسا ہے کہ فلسطینی عوام اسے عدالت میں کوئی چیلنج نہیں کر سکتے۔ 
  یہ بات یاد رہے کہ مشرقی یروشلم وہ علاقہ ہے  جسے  ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت انگریزوں نے اسے فلسطینیوں کو دیا تھا جبکہ ۱۹۶۷ء  کی جنگ میں اس پر قبضہ کیا تھا اور اس قبضے کو  اقوام متحدہ اور عالمی براداری بھی ناجائز سمجھتی ہے۔ لیکن اسرائیل یہاں کسی نہ کسی بہانے انہدامی کارروائی کرکے فلسطینیوں کے مکانات اور زمینیں ہتھیا لیتا ہےتاکہ یہودیوں کو یہاں لا کر بسایا جا سکے۔ بعض علاقوں کو ’گر ین زون ‘ کہہ کر خالی کروانے کا حکم دیا گیا ہے تو بعض کو ’غیر تعمیراتی‘ علاقہ بتایا گیا ہے جبکہ ان علاقوں میں کئی دہائیوں سے فلسطینی باشندے آباد ہیں۔  
  فلسطینی کی ایک سماجی تنظیم  ’گراس روٹ  جیروسلیم ‘  نے بتایا  عدالتی حکم اور انہدامی کارروائی دونوں  ہی فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل کرنے کی اور یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کرنے کا ایک حربہ ہے۔ تنظیم کے مطابق سلوان شہر میں اکثریت فلسطینی باشندوں کی  ہے ۔ اس لحاظ سے یہاں یہودیوں کو آباد نہیں کیا جا سکتا  لیکن اسرائیلی حکومت  کے نئے ’زونل لاء‘ کے ذریعے یہاں کے ان ۳۵؍ فیصد علاقوں  پر یہودیوں کو بسانے کا حکم جاری کیا گیا  ہے جو کہ(شہری انتظامیہ کے مطابق ) غیر قانونی ہے۔ جبکہ ۵۲؍ فیصد حصے کو  گرین زون یا ’غیر تعمیراتی‘ علاقہ قرار دیا گیا ہے  جہاں تعمیرات ممنوع ہے۔  اس طرح پورے  علاقے کے آبادی کے ہوتے ہوئے بھی اسرائیل نے  ’غیر قانونی‘ بنا رکھا ہے۔ سلوان کے البوستان علاقے میں کوئی ۲۰۰۵ء سے لوگوں پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مکانات خالی کر دیں جبکہ اس سال صہیونی نے زور زبردستی  کے ذریعے ان مکانات کو خالی کرنا شروع کیا ہے جس میں عدالت اور انتظامیہ ان کے ساتھ ہیں۔ 

palestine Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK