Inquilab Logo

بیروت دھماکے کی تحقیقات شروع، کئی حکام نظر بند

Updated: August 07, 2020, 8:36 AM IST | Agency | Beirut

چھ سال سے علم تھا کہ بندرگاہ کے گودام میں دھماکہ خیز مادہ موجود ہے لیکن اسے وہاں سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ بندرگاہ انتظامیہ کے مطابق امونیم نائٹریٹ کو محفوظ طریقے سے رکھنا ان کی ذمہ دارینہیں تھی جبکہ متعلقہ وزیرنے کہا کہ کسی وزیر کو نہیںمعلوم کہ بندرگاہ کے کس گودام میں کیا رکھا ہے

Beirut Blast - PIC : PTI
بیروت دھماکہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 لبنان کی راجدھانی بیروت میں  ہوئے تباہ کن دھماکے کی تحقیقات شروع  ہو گئی ہے  اور اس  کیلئے بندرگاہ پر تعینات کئی حکام کو نظر بند کر دیا گیا ہے۔  پہلی نظر میں یہ معاملہ حکام کی لاپروائی کا نظر آ رہا ہے۔  اس لئے  ان میں سے کسی کو بھی گھر سے باہر نکلنے کیلئے منع کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ لبنان کے صدر اور وزیر اعظم نے بدھ کے روز ہی کہہ دیا تھا کہ  اس معاملے میں لا پروائی ہوئی ہے۔  صدر عون مشیل نے ۲۷۵۰۰؍ ٹن امونیم نائٹریٹ کو یوں غیر محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرکے رکھنے  پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا جبکہ وزیراعظم حسن دیاب نے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد اس شخص کو سلاخوںکے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں جو اس دھماکے کا ذمہ دار ہے۔
    بیروت کے گورنر مارون عبوط کا کہنا ہے کہ جو افسران اس معاملے میں ملوث پائے جائیں گے انہیں  فوراً ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا جائے گا تاکہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ واضح رہے کہ بنیادی طور پر تحقیقات اس بات کی ہو رہی ہے کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر  امونیم نائٹریٹ جیسی دھماکہ خیز شے کو یوں لاپروائی کے ساتھ کیسے ذخیرہ کیا گیا؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جس جگہ پر یہ امونیم نائٹریٹ موجود تھا وہ ایک سرکاری گودام ہے  اور یہ امونیم نائٹریٹ  ۶؍ سال قبل گرفتار کئے گئے انتہا پسندوں کے  پاس سے برآمد کیا گیا تھا  اور اس سرکاری گودام میں جمع کر دیا گیا تھا۔ 
  ظاہر سی بات ہے کہ اس لاپروائی کی ذمہ داری براہ راست سرکاری حکام پر عائد ہوتی ہے۔  لیکن جب بیروت بندرگاہ کے کسٹم آفیسر  سے جن کی ذمہ داری ہے بندرگارہ پر ہونے والی نقل وحرکت پر نظر رکھنا ،  اس تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ’’امونیم نائٹریٹ کو محفوظ طریقے سے رکھنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘  ان کے مطابق یہ کام گودام کے ذمہ داروںکا ہے کسٹم محکمے کا کام بندرگاہ پر نظر رکھنا ہے۔ 
  واضح رہے کہ اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت سے لے کر حکام تک کو اس بات کا علم تھا کہ بیروت بندرگاہ کے گودام میں اتنے بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز شے موجود ہے۔ عوامی ناراضگی کی بھی یہی وجہ ہے  لیکن نہ  صرف کسٹم محکمہ بلکہ وزارت اور عدلیہ بھی اس معاملے سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان کے وزیر برائے عوامی امور مشیل نژاد کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے دھماکے سے صرف ۱۱؍ دن پہلے  یہ معلوم ہوا کہ اس گودام میں امونیم نائٹریٹ موجود ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے اس کا علم سپریم ڈیفنس کونسل کی ایک رپورٹ کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا جو کہ میرے ہاتھ ۶؍ مہینے قبل آئی تھی۔ ‘‘ نژاد کہتے ہیں کہ’’ کوئی بھی وزیر یہ نہیں جانتا کہ بندرگاہ کس کنٹینر یا گودام میں کیا چیز رکھی ہوئی ہے  اور یہ اس کا کام بھی نہیں ہے  کہ وہ یہ معلوم کرے۔‘‘ 
 مشیل نژاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے بندرگاہ کے جنرل منیجر حسن کوتیال سےمذکورہ امونیم نائٹریٹ کے تعلق سے تمام دستاویز منگوائے تھے  تاکہ وہ اس معاملے میں کوئی اقدام کر سکیں لیکن دوسری صبح ہی گودام میں دھماکہ ہو گیا۔  نژاد کے مطابق ان کی وزارت نے کوئی ۱۸؍  خطوط متعلقہ عدالت کو لکھے تاکہ یہاں موجود دھماکہ خیز شے کو ضائع کیا جا سکے  لیکن کوئی جاب نہیں  ملا۔ حالانکہ  لبنان کے نامور ماہر قانون  نذر صغیع کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں پوری ذمہ داری بندرگاہ کے حکام کی اور وزارت برائے عوامی امور کی ہے۔ 
  فی الحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ تحقیقات کیلئے کس کس سے پوچھ تاچھ کی جائے گی۔  اب تک ان حکام کے نام بھی ظاہر نہیں ہو سکے ہیں جنہیں نظر بند کیا گیا ہے۔ یعنی تحقیقات شروع تو ہوئی ہے لیکن ابتدائی مرحلے میں ہے۔   جمعرات کو بیروت کے عوام نے جو ناراضگی ظاہر کی ہے اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ حکام کو معلوم ہوتے ہوئے کہ اس قدر خطرناک چیز بندرگاہ کے گودام میں موجود ہے  اسے وہاں سے ہٹانے کی گزشتہ ۶؍ سال سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ امونیم نائٹریٹ میں آگ لگنے اور دھماکہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK