Inquilab Logo

بائیڈن طالبان کیساتھ معاہدے پر نظر ثانی کریں گے

Updated: January 24, 2021, 1:05 PM IST | Agency | Washington

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر کی افغانستان کےاپنے ہم منصب سے فون پر گفتگو۔ طالبان کی جانب سے معاہدے کی پاس داری ہوئی یا نہیں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ایران پر عائد جوہری پابندی کو مزید سخت کرنے کا عندیہ، یورپی اتحادیوں سے کئی عالمی معاملات پر تبادلۂ خیال، عراق پر بھی نظر

Joe Biden.Picture :INN
جو بائیڈن۔ تصویر:آئی این این

اس بات کا اندیشہ پہلے ہی  ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جو بائیڈن کے صدر بنتے ہی افغانستان  میں طالبان کے ساتھ ہوئے امریکہ کے امن معاہدے کو منسوخ کیا جا سکتا ہے، امریکی حکام کے حالیہ بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امن معاہدے پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتاہے۔   امریکہ کے نئے وزیر دفاع  لائیڈ آسٹن  نے عالمی سطح پر امریکہ کی سرگرمیوں کے تعلق سے  جائزہ لینا شروع کر دیا ہے ۔ انہوں نے ایک روز قبل  نیٹو کے جنرل سیکریٹری  جینس اسٹولن برگ  کے ساتھ افغانستان اور عراق کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا۔  امریکی محکمۂ دفاع نے سنیچر کو اس بات کی اطلاع دی کہ  وزیردفاع اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری نے  افغانستان اور عراق جیسے حساس معاملات پر گفتگو کی اور ان دونوں  ممالک   میں نیٹو کی مضبوطی برقرار رکھنے پر غوروخوض کیا۔ 
  اس  بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے  خارجہ امور  میں سب سے پہلے  عراق اور افغانستان کے معاملے پر ہی توجہ دی ہے جہاں سے حال ہی میں سابقہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی فوجیںواپس بلائی ہیں۔ اب ان دونوں ممالک میں امریکہ کے صرف ڈھائی ڈھائی ہزار  فوجی باقی رہ گئے ہیں۔ ہر چند کہ بائیڈن نے اب تک  افغانستان   میں ہوئے امن معاہدے کے تعلق سے کوئی منفی بیان نہیں دیا ہے لیکن  اقتدار سنبھالتے ہی  سب سے پہلے افغانستان کی طرف متوجہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بائیڈن وہاں امریکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔   
  ادھر  بائیڈن انتظامیہ میں قومی سلامتی کے مشیر سولووان  نے جمعہ کو  افغانستان کے اپنے ہم منصب حمداللہ مہیب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔  سولووان نے انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ نئی حکومت  امن معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان حکومت خود بھی  اس معاہدے کے خلاف ہے کیونکہ اس کا اس معاہدے میں کوئی رول نہیں ہے۔ اس میں صرف  امریکہ اور طالبان کے درمیان معاملات طے کئے گئے ہیں۔ کیونکہ طالبان نے افغانستان حکومت کو تسلیم ہی نہیںکیا ہے۔ امریکہ کے اصرار اور پاکستان کے مشورے پر انہوں دوحہ میں  افغان حکومت کے وفد سے گفتگو پر آمادگی ظاہر کی تھی  جس میں اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔   جیک سولووان کا کہنا تھا کہ ’’ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ طالبان نے امن معاہدے کی شرائط کے مطابق  افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں کو کم کیا ہے یا نہیں؟‘‘  قومی سلامتی کے مشیر کی ترجمان  ایملی ہورن نے  اس  ٹیلی فونک  گفتگو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ امریکہ علاقائی سطح پر سفارتی کوششوں کے ساتھ امن عمل کی حمایت کرے گا تاکہ فریقین مسئلے کا پائیدار اورصحیح سیاسی حل تلاش کرسکیں۔‘‘  انہوں نے بتایا کہ جیک سولووان نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کی  پر تشدد کارروائیوں  کا بھی جائزہ لےگا تاکہ  افغانستان کے  دیگر گروہوں سے بھی امن کے تعلق سے گفتگو کی جا سکے۔  واضح رہے کہ امریکہ کے ساتھ طالبان کے مطابق اب طالبان اس بات کے پابندی ہیں کہ وہ  امریکی فوج پر حملہ نہیں کریں گے  اور نہ امریکی فوج ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔ البتہ  طالبان کا ایسا کوئی معاہدہ افغانستان کی اشرف غنی  حکومت کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے ان کی طرف سے  افغان فوج کے خلاف حملے جاری ہیں  جن میں حال ہی میں کئی اہم  عہدیدار اور  اہلکار مارے گئے ہیں۔ 
 ایران کا معاملہ بھی زیر غور
 بائیڈن انتظامیہ نے دیگر اہم عالمی معاملات پر بھی پیش رفت شروع کر دی ہے ۔  قومی سلامتی کے مشیر جیک سولووان نےجمعہ کو  روس ، چین اور ایران کے معاملات پر امریکہ  کے  یورپی اتحادیوں سے گفتگوکی ہے۔ان کی ترجمان ایملی ہون کا کہنا ہے کہ سولووان نے فرانس، جرمنی، اور برطانیہ کے حکام سےبات  کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ بدھ کو اپنی پہلی پریس بریفنگ میں وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جین بساکی نے ایرانی جوہری معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ایران پر جوہری پابندیوں کو سخت کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران پر مزید پابندیوں کا معاملہ  صدر (بائیڈن) کے غیر ملکی ہم منصبوں اور اتحادیوں کے ساتھ ابتدائی مشاورت کا حصہ ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ایران کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں اتحادیوں سے جلدی سے مشاورت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جیک سولووان نے اس مشاورت  کا سلسلہ شرو ع کر دیا ہے۔  یاد رہے بائیڈن سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایران کے ساتھ نرمی برتیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK