Inquilab Logo

بلقیس بانوکیس :گجرات حکومت کوکوئی پشیمانی نہیں

Updated: October 19, 2022, 9:59 AM IST | new Delhi

بلکہ سپریم کورٹ کے حلف نامہ میں مجرموں کی رہائی کا دفاع کیا ، کہا کہ ان کے اچھے برتائو کے سبب قانون کے مطابق رہائی عمل میں آئی ، مرکزی وزارت داخلہ نے بھی اجازت دی تھی

Not only were these criminals released, but they were also welcomed
ان مجرموں کی نہ صرف رہائی عمل میں آئی بلکہ ان کا سرِ عام استقبال بھی کیا گیا

گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملے میں قصوروار قرار دیئے گئے ۱۱؍ مجرموں کی رِہائی پرگجرات حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کر دیا ہے۔ گجرات کی بی جے پی حکومت کو ان مجرموں کی رہائی پر نہ کوئی افسوس ہے اور نہ کوئی پشیمانی بلکہ اس نے اپنے فیصلے کا سینہ زوری کے انداز میں دفاع کیا ہے۔
گجرات حکومت کا حلف نامہ 
  اپنے حلف نامہ نے گجرات حکومت نے کہا کہ اسی سال مئی  میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ان لوگوں کی رِہائی کے لئے ۱۹۹۲ء میں بنائی گئی  پرانی پالیسی نافذ کی جاسکتی ہے۔ اس پالیسی میں ۱۴؍سال جیل میں گزارنے کے بعد عمر قید سے رِہا کرنے کی سہولت ہے۔ حکومت نے کہا کہ قید میں موجودتمام مجرموں کا رویہ اچھا تھا ۔ جیل میں ان کے تعلق سے کوئی شکایت بھی نہیں ملی تھی ۔ سبھی افراد ۱۴؍ سال سے زیادہ مدت سے جیل میں تھے اور ان کی رہائی پر غور کرنا ضروری تھا۔ اس معاملے میں گجرات حکومت نے مرکزی وزارت داخلہ سے بھی اجازت لے لی تھی ۔
عرضی داخل کرنے والوں پر برہمی کا اظہار 
 اس معاملے میں  مفاد عامہ کی عرضی داخل کرنے والوں پر گجرات حکومت نے سخت برہمی بھی ظاہر کی اور کہا کہ اس معاملے میں پی آئی ایل کا   داخل ہونا قانون کا غلط استعمال ہے۔ کسی باہری شخص کو  اس طرح کےمجرمانہ معاملے میں مداخلت کا حق قانون نہیں دیتا ہے۔ سبھاشنی علی اور دوسرے عرضی دہندگان کا ان مجرموں کی رہائی سے کوئی بنیادی حق متاثر نہیں ہو رہا ہے جس سے وہ پی آئی ایل داخل کر سکیں۔ اس لئے ان سبھی کی عرضی خارج کی جائے۔گجرات حکومت نے اپنے اوپر لگائے جا رہے اس طرح کے الزامات کو بھی غلط ٹھہرایا جس میں کہا جا رہا ہے کہ بلقیس بانو کے قصورواروں کو ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ پروگرام کے تحت چھوڑا گیا ہے۔ حکومت نے کہا کہ اس معاملے میںسپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پوری قانونی کارروائی پر عمل کرتے ہوئے رِہائی عمل میں لائی گئی  ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ عرضی دہندگان سیاسی پارٹیوں سے جڑی ہوئی ہیں  اور کسی بھی عرضی دہندہ کا اس  معاملے سے کوئی  براہ راست تعلق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت 
  اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے جسٹس اجئے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے ہدایت دی کہ گجرات حکومت کے ذریعہ داخل جواب سبھی فریقوںکو دستیاب کرایا جائے۔ عرضی دہندگان کو گجرات حکومت کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ پر اپنا جواب داخل کرنے کیلئے وقت بھی دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عرضی میں گجرات حکومت کے  فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس پورے معاملے کی جانچ سی بی آئی کی نگرانی میں ہوئی تھی، اس لئے گجرات حکومت قصورواروں کو سزا میں چھوٹ دینے کا یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔
عدالت کا برہمی کا اظہار
 گجرات حکومت کے حلف نامہ پر بنچ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ۔ بنچ میں شامل جج جسٹس رستوگی نے کہا کہ ہمیں صبح اخبارات کے ذریعے معلوم ہواکہ گجرات حکومت نے بھاری بھرکم حلف نامہ داخل کردیا ہے جس میں سابقہ کیسیز کے کئی حوالے دئیے گئے ہیں۔لیکن ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ حلف نامہ میں دماغ کا استعمال کیا گیا ہے یا نہیں کیوں کہ ہمیں تو اب تک ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ جسٹس رستوگی نے  ان حوالوں پر بھی برہمی ظاہر کی اور کہا کہ حکومت گجرات کو اتنے حوالے دینے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا وہ بنچ کے صبر کا امتحان لینا چاہتے ہیں یا پھر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں بھی قانون معلوم ہے۔ اتنے کیسیز کے حوالوں کی وجہ سے ہم اب تک حلف نامہ پوری نہیں پڑھ سکے۔بنچ نے اس معاملے میں مخالف فریقو ں کو جواب دینے کے لئے وقت دیتے ہوئے اگلی سماعت ۲۹؍ نومبر کو مقرر کردی۔ واضح رہے کہ گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو پر ۲۰؍ سے زائد فسادیوں نے حملہ کیا تھا۔ اس دوران حاملہ بلقیس بانو سمیت کچھ دیگر خواتین کی عصمت دری کی گئی تھی  اور ۲۰۰۸ء میں ان مجرموں کو سزا سنائی گئی تھی ۔ 
راہل گاندھی نے کا ردعمل 
 کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی بلقیس بانو کیس میں گجرات حکومت کے حلف نامہ پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ اس معاملے سے واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم مودی کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کے تحفظ کی بات کرنا محض ایک ڈھونگ ہے کیوں کہ اصل میں وہ عصمت دری کے مجرموں کا دفاع کررہے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں ایک اور تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK