Inquilab Logo

پرامن مظاہرین کو ’غدار‘ یا ’ملک مخالف‘ نہیں کہا جاسکتا: بامبے ہائی کورٹ

Updated: February 15, 2020, 3:52 PM IST | Mumbai

بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کہا کہ جو لوگ ایک قانون کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کررہے ہیں انہیں ’غدار‘ یا ’ملک مخالف‘ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکم مہاراشٹر کے بیڑ ضلع سے تعلق رکھنے والے افتخار شیخ کی اپیل پر سنایا گیا ہے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پرامن طریقے سےاحتجاج کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ خیال رہے کہ ضلع مجسٹریٹ اور پولیس نے ۴۵؍ سالہ افتخار شیخ کی احتجاج کی اجازت کو رد کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔

سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتے افراد۔ تصویر: پی ٹی آئی
سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتے افراد۔ تصویر: پی ٹی آئی

ممبئی:بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کہا کہ جو لوگ ایک قانون کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کررہے ہیں انہیں ’غدار‘ یا ’ملک مخالف‘ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکم مہاراشٹر کے بیڑ ضلع سے تعلق رکھنے والے افتخار شیخ کی اپیل پر سنایا گیا ہے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پرامن طریقے سےاحتجاج کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ خیال رہے کہ ضلع مجسٹریٹ اور پولیس نے ۴۵؍ سالہ افتخار شیخ کی احتجاج کی اجازت کو رد کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس ٹی وی نلاوڈے اور ایم جی سویلکر کی بنچ نے جمعرات کو کہا تھا کہ ’’پیش کی گئی عرضداشت سے یہ واضح ہے کہ اس طرح کے احتجاج سے سی اے اے کی دفعات کی نافرمانی نہیں ہوگی۔ اس طرح کی عرضداشت پیش کرکے عدالت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے افراد کے پرامن انداز میں احتجاج شروع کرنے کے حق پر غور کرے! یہ عدالت اس بات کا اظہار کرنا چاہتی ہے کہ ایسے افراد کو جو ایک قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، انہیں غدار اور ملک مخالف نہیں کہا جائے۔یہ صرف احتجاج کا ایک فعل ہے جو حکومت کے خلاف ہے اور سی اے اے کی وجہ سے ہے۔‘‘ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا کہ ’’ہندوستان کو آزادی پر امن احتجاج ہی سے ملی ہے اور آج تک اس ملک کے عوام نے احتجاج کیلئے یہی راہ اپنائی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج بھی ہندوستان کے بیشتر شہری پر امن احتجاج پر یقین رکھتےہیں اور تشدد کو ہوا نہیں دیتے۔ اس مقدمہ میں بھی اپیل کنندہ اور اس کے ساتھی پر امن طریقے سے احتجاج کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ واضح رہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کے کئی گروپ سیاہ قانون کے خلاف احتجاج کررہےہیں جن میں سب سے اہم دہلی کا شاہین باغ علاقہ ہے۔ 
کورٹ نے کہا کہ ’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور ہمارے آئین نے ہمیں اکثریت کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی دی ہے۔ جب اس طرح کا عمل (سی اے اے) ہوتا ہے تو کسی مذہب کے کچھ لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کے مفاد کے خلاف ہے اور اس طرح کے عمل کی مخالفت کی ضرورت ہے۔ یہ ان کے خیال اور اعتقاد کی بات ہے اور عدالت اس خیال یا عقیدے پر فیصلہ نہیں سنا سکتی۔ ‘‘ عدالت نے مجسٹریٹ اور پولیس کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ لوگوں کو کسی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کے حق پر غور کرے۔ اگر عدالت یہ محسوس کرے گی کہ احتجاج کرنا ان کا بنیاد حق ہے تو وہ اسے وہ حق دے گی۔ اگر لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ پیش آتا ہے تو یہ سیاسی حکومت کا مسئلہ ہے۔ ان حالات میں یہ حکومت کی ڈیوٹی ہے کہ وہ لوگوں سے ملے اور انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK