Inquilab Logo

آج یہ حجاب پوش لڑکیوں کےساتھ ہورہاہے، کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتاہے

Updated: October 03, 2022, 10:41 AM IST | Inquilab News Networks | New Delhi

سکھ مذہبی اصولوں کے مطابق دستار باندھنے والی چرن جیت کور کی فکرمندی، وہ بھی اُن افراد میں شامل ہیں جنہوں نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے

Charanjit Kaur with his lawyers at the Supreme Court .Picture:The Quint
چرن جیت کور سپریم کورٹ میں اپنے وکیلوں کے ساتھ ۔ تصویر: بشکریہ ’دی کوئنٹ

 ہریانہ سے تعلق رکھنےو الی ۴۶؍ سالہ کسان اور آشاہیلتھ ورکر چرن جیت سنگھ کور اُن  ۲۳؍ عرضی گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں  نے کرناٹک  میں  حجاب پر پابندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ انہوں   نے یہ پٹیشن اسی سال اپریل میں داخل کی ہے۔ ہریانہ کے کیتھل  علاقے سے تعلق رکھنے والی چرن جیت  کور مسکان خان کے اس ویڈیو سے متاثر ہیں جس میں  مسکان کو کالج میں حجاب پہننے پر بھگوا عناصر نے گھیر کر نعرہ بازی شروع کردی تھی مگر گھبرانے یا ڈر جانے کے بجائے کسی شیرنی کی طرح  مسکان نے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے ان کا مقابلہ کیا۔  دی کوئنٹ  سے گفتگو کرتے ہوئے  چرن جیت کور مذکورہ ویڈیو کے تعلق سے کہتی ہیں کہ ’’ایسا لگتا تھاکہ کاش اس وقت میں اس کے ساتھ ہوتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’کئی بار کچھ باتیں ایسی ہوتیں ہیں کہ دل کو چھو جاتی  ہیں اور دل کہتا ہے کہ اس پر مجھے بولنا ہے تو بولنا ہے۔‘‘ مسکان کے ذریعہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے، ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ بلند کرنے  پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کور کہتی ہیں کہ ’’اسے اپنے بچاؤ میں ایسا کرنا ہی تھا، جیسے ہم  (سکھ) لوگ نعرہ لگاتے ہیں ’ ست سری اکال، جو بولے سو نہال‘اس سے ایک طاقت سی ملتی ہے۔اسی طرح    مسکان   کو بھی خود میں ہمت پیدا کرنے کیلئے نعرہ لگانا پڑا۔‘‘    اس سلسلے میں آواز بلند کرنے اور سپریم کورٹ تک پہنچ جانے کے سلسلے میں چرن جیت کور کہتی ہیں کہ ’’یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ آج کسی اور لڑکی  کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو ہمیں  کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ ہم سب عورتوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر کسی ایک کے ساتھ غلط ہورہاہے تو ہمارے ساتھ بھی ہوسکتاہے۔ اگر کسی اور کے گھر آگ لگی ہے تو وہ پھیل کر ہمارے گھر بھی آسکتی ہے۔ ‘‘  چرن جیت کور سکھوں کا مذہبی لباس زیب تن کرتی ہیں جس میں ان کے سرپر دستار بھی شامل ہے۔ وہ کہتی ہیںکہ’’آج وہ حجاب پوش خواتین کو نشانہ بنارہے ہیں۔میں بھی دستار پہنتی ہوں،میں یہ نہیں سوچ سکتی کہ اس سے مجھے فرق نہیں پڑےگا۔  کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ میں جو ۲۳؍ درخواستیں زیر غور ہیں،ان میں چرن جیت کور واحد غیر مسلم عرضی گزار ہیں۔  سپریم کورٹ  کی دو رکنی بنچ ۲۲؍ ستمبر کوسماعت مکمل ہونے کےبعد اپنافیصلہ محفوظ کرچکاہے۔ چرن جیت کور کے مطابق حجاب پوش خواتین  کی حمایت کیلئے انہیں بہت زیادہ غور نہیں کرنا پڑا بلکہ یہ حمایت فطری ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ ۲۰۰۷ء میں جب انہوں  نے آشاورکر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب ہی مذہب کے بھی قریب آنے لگیں اور ’امرت سنچار‘تقریب میں شرکت کی اوراس کے بعد پابندی سے دستار پہننے لگیں۔  ان کے مطابق’’یہ دستار اب میری زندگی کا اہم حصہ  ہے جب تک میں زندہ ہوں یہ میرےساتھ رہے گا۔ ہمیں امرت سنچار میں حصہ لینے پر مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی پر ہے۔ایک بار آپ اس لباس کی اہمیت کو سمجھ لیتے ہیں تو پھرآپ زندگی بھراسے پہننا چاہتے ہیں۔‘‘ اپنے لباس  سے حجاب پوش خواتین کا موازنہ کرتے ہوئے  چرن جیت نے مسکان کے حوالے سے گفتگو کی اور کہا کہ ’’میں تو پہن سکتی ہوں، مجھے کوئی روکتا یا ٹوکتا نہیں  ہے، اگر کوئی روکے گا تو میں سامنا کروں گی، ایسے ہی اُس لڑکی کا بھی اپنا پہناوا ہے تو اسے کیوں روکا گیا۔  اس  لباس  سے سماج کے اتحاد میں اور پڑھائی میں کیسےکوئی رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس کو جو پہننا ہے وہ پہنے ہوئے ہے ، وہ کسی اور سے تو کچھ نہیں کہہ رہی ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے سماج کی ہندو خواتین کام کرتے وقت،  مندر جاتی ہیں تو سر کو ڈھانک لیتی ہیں، سندور لگاتی ہیں تو کیا ہم انہیں روکتے ہیں کہ ایسا مت کرو، سماج کے اتحاد پر اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہماری صدر رہ چکیں پرتبھا پاٹل جی بھی اپنا سر ڈھکتی تھیں تو کیا اس سے سماج کو کوئی فرق پڑتا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سر کو ڈھانکنے کو صرف اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیناہندوستانی  تہذیب سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان میں  خواتین مذہب کی تفریق کےبغیر سر ڈھانکتی رہی ہیں۔  انہوں نے اپنی پٹیشن میں بھی یہ  بات کہی ہے کہ ’’حجاب/ اسکارف کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیناہماری تہذیب اور پرانے ریت رواجوں کی توہین ہےجو اسلام  کی آمد سے پہلے بھی تھا۔ 

haryana Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK