Inquilab Logo

وزیراعلیٰ بمقابلہ گورنر، سرد جنگ’ گرم جنگ‘ میں تبدیل

Updated: September 22, 2021, 8:50 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

کوشیاری نے ساکی ناکہ سانحہ کے حوالے سے خواتین کی سلامتی پر سوال اٹھایا، اسمبلی کےخصوصی اجلاس کی سفارش کی،اُدھو نے قومی صورتحال کا حوالہ دیا اور پارلیمانی اجلاس کا مطالبہ کیا

Chief Minister uddhav Thackeray has replied to Governor Koshiari in his own language.Picture:INN
وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے گورنر کوشیاری کو انہی کی زبان میں جواب دیا ہے تصویر آئی این این

گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اور ریاست  کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے درمیان سرد جنگ ایک بار پھر منظر عام پر آئی ہے ۔  اس مرتبہ موضوع خواتین کا  تحفظ  ہے ۔ دراصل  ساکی ناکہ عصمت دری معاملے پر عوام خصوصاً خواتین میں بے چینی کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ دنوں گورنر نے  وزیر اعلیٰ کو ۲؍ صفحات پر مشتمل مکتوب بھیج کر خواتین پر ہونے والے مظالم پر غور وخوض کرنے اور اس کی روک تھام کیلئے ۲؍ روزہ خصوصی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی سفارش کی تھی۔ گورنر کے اس مکتوب کا جواب وزیر اعلیٰ نے بھی اسی انداز اور لہجے میں دیا ہے۔ انہوں نے ۴؍ صفحات پر مشتمل جوابی مکتوب  جو انہوں نے مراٹھی میں لکھا ہے ، کہا کہ  چونکہ خواتین پر مظالم کا مسئلہ صرف ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا اور خصوصاً بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کا زیادہ  ہے اس لئے اس قومی اور سنگین مسئلہ پر تبادلۂ  خیال کرنے کیلئے ۴؍ روزہ پارلیمانی اجلاس منعقد کیاجانا چاہئے ۔ اس اجلاس میں دہلی اور اتر پردیش میں عصمت دری اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی  کے ساتھ ساتھ ساکی ناکہ کے مسئلہ پر بھی تبادلۂ خیال کیا  جاسکتا ہے  ۔
 اپنےمکتوب میں وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے نےگورنر کو مخاطب کیاکہ ساکی ناکہ معاملے کا حوالہ دے کر آپ (گورنر) نےلکھا کہ ریا ست میں عصمت دری اور خواتین پر ہونے والے مظالم اور ساکی ناکہ کی واردات کے بعد خواتین کے وفد نے آپ سے ملاقات کی اور اسی لئے آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اس سنگین معاملے پر ۲؍ روزہ اسمبلی اجلاس منعقد کر کے خواتین پر ہونے والے مظالم پر بحث ہونی چاہئے۔ حالانکہ اس واردات کے بعد مَیں ( وزیر اعلیٰ) نے خود وزارت داخلہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے متعدد میٹنگیں کیں اور اس بات کو یقینی بنایا کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں ۔ اسی کے ساتھ ہی ہر پولیس اسٹیشن میں خواتین کے تحفظ کیلئے نربھیا اسکواڈ تشکیل دینے کا بھی حکم دیا۔ متاثرہ خواتین کو انصاف دلانے اور خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دلانےکیلئےاس معاملے کی فارسٹ ٹریک کورٹ میں سماعت کرنے اور خصوصی سرکاری  وکیل کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ 
 ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ متاثرہ کے اہلِ خانہ کی  کفالت اور بچوں کی پرورش کی بھی ذمہ داری سرکار قبول کرے گی۔ ان اقدامات کے باوجود حکومت مخالفین کی جانب سے خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے اور ایسے حالات میں گورنر بھی ان کے ‘ سُر میں سُر‘ملا کر آئینی عہدہ کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔  
  وزیر اعلیٰ نے کہا کہ’’مجھے اس کا احساس ہے کہ عصمت  دری  اور خواتین پر مظالم کی واردا تیں ریاست اور ملک کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی بدنام کرتی ہیں۔ساکی ناکہ جیسی وارادت آئندہ نہ ہو اس کیلئے سخت اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن خواتین پر مظالم ریاستی معاملہ نہیں بلکہ  یہ  قومی  مسئلہ  ہے۔اس لئے اس پر ملک کی پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے۔ ادھو ٹھاکرے کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں دہلی میں خوتین پر مظالم میں  اضافہ ہوا ہے۔ اسے ’عصمت دری کی راجدھانی ‘ تک کہا جانے لگا   جبکہ وہاں نظم و نسق کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے گورنر کو یاد دلایا کہ دہلی میں ۹؍ سالہ دلت لڑکی کی شمشان بھومی میں اجتماعی عصمت دری  اور اس کے بعد قتل کی واردات  رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھی۔اس معاملے کے ملزمین میں شامل پجاری اور اس کے ۳؍ ساتھیوں نے اپنے جرم کا ثبوت مٹانے کیلئے اسے نذر آتش بھی کر دیا تھا۔بی جے پی کے اقتدار والے بہار میں ایک رکن پارلیمان نے اسی پارٹی کی خاتون ورکر کی عصمت دری کی اور جب متاثرہ پولیس اسٹیشن شکایت درج کرانے گئی تو سیاسی دباؤ کے سبب اس کی شکایت بھی نہیں لی گئی۔ آخر کار ۳؍ ماہ بعد عدالت کی ہدایت پر پولیس نے ملزم رکن پارلیمان پر مقدمہ درج کیا۔
 وزیر اعلیٰ  نے گورنر کو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہونے والے جرائم یاد دلائے اور مزید لکھا کہ اتر پردیش جہاں رام بھکت رہتے ہیں وہاں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ یو پی میں کھو کھو کی کھلاڑی  کی عصمت دری اورقتل کیا گیا اور ملزمین نے اسے بجنور ریلوے اسٹیشن پر لہو لہان حالت میں  چھوڑ دیا تھا۔یہ واردات ۱۰؍ ستمبر کو دوپہر ۲؍ بجے نوکری کے لئے انٹرویو دے کر لوٹنے والی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اترپردیش میں ہی ہاتھرس  اوراناؤ میں بھی شرمسار کرنے والی وارداتیں کئی مرتبہ عوام کے سامنے آچکی ہیں لیکن ان ریاستوں میں بی جے پی نے خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟
  وزیر اعلیٰ کے مطابق جموں کشمیر میں بھی ماں بہنوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔ اترا کھنڈ جہاں آپ (گورنر) نے  وزیر اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دیئے ہیں وہاں بھی  اس ’دیو بھومی‘ پر بھی خواتین پر مظالم میں ۱۵۰؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔، ہری دوار  اور  دہرا دون جیسے شہروں میں آبرو ریزی اور قتل کے معاملات  بڑھ رہے ہیں۔ 

کئی ریاستوں میںخواتین کے اغوا ءکی وارداتیں بڑھ گئی  ہیں۔وہاں اسمبلی کا خصوصی اجلاس کیوں طلب نہیں کیا گیا؟گجرات ماڈل میں بھی خواتین محفوظ نہیں۔ گجرات پولیس کی رپورٹ کے مطابق وہاں روزانہ ۱۴؍ خواتین کی عصمت دری  کی جاتی ہے  اور ان کا  جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔  احمد آباد میں ۲۹۰۸؍ خواتین لاپتہ  ہیں، گزشتہ ۲؍ سال میں گجرات میں ۱۴؍ ہزار ۲۲۹؍ خواتین لاپتہ ہوئی ہیں ۔ ۱۷؍ اپریل  ۲۰۲۱ء کو احمد آباد  میں ۲۵؍ سال کی خاتون کی عصمت دری کی گئی۔  مہسانہ ، راجکوٹ،  بڑودہ ، احمدآباد دیہی ، چھوٹا ادوے پور، سورت دیہی ، جام نگراور  پاٹن میں بھی خواتین پر مظالم اور انہیں اذیت پہنچانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ گجرات میں تو یہ حال ہے کہ خواتین پر مظالم پر بحث کیلئے ایک مہینے کا خصوصی اجلاس منعقد کرنا پڑے گا۔ادھو ٹھاکرے کے مطابق مہاراشٹر شیواجی مہاراج کی سرزمین ہے اور ان کے دور سے اب تک خواتین کی عزت اور تحفظ ہر ایک مہاراشٹرین کا فرض رہا ہے اس لئے ہمیں یہ نہ سکھایا جائے کہ کیا کرنا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ ان معاملات میں ہمیں  مشورہ دینے کے بجائے مرکزی حکومت کومشورہ دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK