Inquilab Logo

ایغور مسلمانوں کی حالت زار کا تذکرہ کرنے پر چین پوپ فرانسس سے ناراض

Updated: November 27, 2020, 11:42 AM IST | Agency | Beijing

دنیا کےمقبول ترین مذہبی پیشو ا نے اپنی نئی کتاب میں نسلی بنیاد پر ہونے والے مظالم کی مثال کے طور پر ایغور مسلمانوں کا ذکر کیا ہے، چینی حکومت کی جانب سے الزام کی تردید

Pope Francis - Pic : INN
پاپ فرانسس ۔ تصویر : آئی این این

چینی حکومت ان دنوں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس  سے ناراض ہے۔ کیونکہ  انہوں نے اپنی ایک نئی کتاب میں چینی اقلیت ایغور مسلمانوں کی مصیبتوں اور مسائل کا ذکر بھی کیا ہے۔ایک روز قبل  چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی ژیان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پوپ فرانسس کی طرف سے `عائد کردہ الزامات بے بنیاد ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ’’ چین میں تمام نسلی گروہوں کو ترقی اور مذہبی اعتقاد  پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے حقوق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔‘‘تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان کیمپوں کا ذکر بالکل نہیں کیا، جہاں دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو رکھا گیا ہے۔
  واضح رہے کہ پوپ فرانسس کی نئی کتاب ’لیٹ اس ڈریم‘ ( ہمیں کواب دیکھنے دو)یکم دسمبر کو مارکیٹ میں آ رہی ہے اور اس کتاب میں انہوں نے ایغور مسلمانوں کو بطور مثال ان طبقات کی فہرست میں شامل کیا ہے، جن کو صرف ان کے عقیدے کی وجہ سے جبر و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اپنی اس کتاب میں پوپ فرانسس نے دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ان گروہوں کی بات کی ہے، جو کسی بھی معاشرے میں بطور اقلیت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
 پوپ فرانسس نے اپنی اس کتاب میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ داعش کے ہاتھوں جبر کا نشانہ بننے والی یزیدی   برادری کا ذکر بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان مسیحیوں کا ذکر بھی کیا  ہے، جنہیں مصر اور پاکستان میں چرچ کے اندر عبادت کرتے ہوئے بم حملوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ایغور مسلمانوں کے تعلق سے گزشتہ چند سال سے مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ انہیں اسلام سے دور کرنے کی غرض سے خصوصی کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ جہاں انہیں ’ماڈرن‘ یا دوسرے لفظوں میں ’بےدین‘  بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس تعلق سے بیان جاری کیا تھا اور  ایغور مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے والے چینی حکام پر پابندی عائد کی تھی۔
  لیکن  پوپ فرانسس کا یوں ایغور مسلمانوں کی  مظلوم  کے طور پر شناخت کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بین الاقوامی سطح پر ان کے کسی بھی بیان پر سنجیدگی سے توجہ دی جاتی ہے ، دوسرے یہ کہ چین کے ساتھ ویٹی کن سٹی کا وہ معاہدہ جس کی رو سے وہ کوئی ایسا بیان نہیں دے سکتے جو چین کے خلاف سمجھا جائے۔  یہی وجہ ہے کہ پوپ فرانسس نے ابھی تک براہ راست چین کو اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے حوالے سے کبھی اُس طرح تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، جس طرح امریکہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بناتی آئی ہیں۔مذکورہ معادہ ویٹی کن سٹی اور بیجنگ کے درمیان ہوا تھا  جس کی رو سےچین کے کیتھولک چرچ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ملی ہوئی بدلے میں ویٹی کن سٹی چین پر تنقید کرنے سے گریز کرتا  ہے۔ویٹی کن سٹی نے گزشتہ ماہ ہی چین کے ساتھ اس معاہدے کی دوبارہ توسیع کی ہے اور اس وجہ سے پوپ چین پر براہ راست تنقید کرنے کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔چین اور ویٹی کن سٹی کے مابین باقاعدہ تعلقات ۱۹۴۹ء سے نہیں ہیں۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات منقطع کرتے ہوئے پادریوں کو گرفتار کر لیا تھا۔

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK