Inquilab Logo

چین کاتائیوان کو ہتھیار سپلائی کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندی کا اعلان

Updated: October 28, 2020, 12:17 PM IST | Agency | Beijing

چینی وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق چین اپنے قومی مفاد کے لئے ضرورت پڑی تو پابندی کے علاوہ بھی قدامات کر سکتا ہے

China FM
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژائو لی ژیان

چین نے تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان  کیا ہے۔اطلاع کے مطابق پیر کو چینی دفتر خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی ژیان نے پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ چین کو اپنے قومی مفاد کے تحفظ کیلئے پابندیاں عائد کرنے سے بڑھ کر بھی اقدمات کرنےپڑے تو کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور  تائیوان  کے درمیان معاہدے کیلئے ہتھیار فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں لاکہیڈ مارٹن، بوئنگ ڈیفنس، ریتھیون اور دیگر پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ تائیوان کو امریکہ کی جانب سے ہتھیار کی فروخت میں شریک کمپنیوں کے ساتھ  افراد کو بھی کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ترجمان کی جانب سے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
 واضح رہے کہ امریکہ نے تائیوان کو سینسرز، میزائل سسٹم اور گولہ بارود  وغیرہ سمیت ۱ء۸؍ ارب ڈالر کے جنگی سازو سامان فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دی تھی۔ دیگر کئی ممالک کی طرح امریکہ کے تائیوان کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم قانون کے تحت امریکہ اس کی دفاعی ضروریات فراہم کرنے کا پابند ہے۔دوسری جانب چین نہ صرف تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے بلکہ اس پر اختیار حاصل کرنے کے لئےطاقت کے استعمال کو بھی جائز تصور کرتا ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کو دفاعی ساز و سامان کی فراہمی سمیت جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ اور انسانی حقوق سمیت کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔چین کی جانب سے جن کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے ان میں سے کرنے پر بوئنگ اور لاکہیڈ مارٹن نے میڈیاکے رابطہ کرنے پر  کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ضابطوں کی پابند ہیں اور ان کی چین میں موجودگی محدود نوعیت کی ہے۔ ریتھیون نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل تائیوان اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے مراسم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چینی صدر نے  اپنی فوج کو ممکنہ جنگ کیلئے تیار رہنے کی ہدایت  دی تھی۔ اب اس پابندی  کے سبب دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جس کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK