Inquilab Logo

سپریم کورٹ میں داخلے پر روک، ضروری معاملات کی ویڈیو کانفرنسنگ سے سماعت

Updated: March 24, 2020, 7:28 AM IST | Agency | New Delhi

شام ۵؍ بجے تک تمام وکلاء کے چیمبر کو سیل کرنے کا بھی حکم، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سب اپنی اپنی فائلیں اور ضروری کاغذات نکال لیں۔کورونا وائرس کے بڑھتے اثرات کے پیش نظر مذہبی مقامات پر مکمل پابندی اور جانچ کیلئے ٹیسٹ لیباریٹریز میں اضافے سے متعلق مفاد کی عرضی پر بھی کوئی حکم دینے سے انکار، کہا: کورونا کے خلاف حکومت بہترین پہل کر رہی ہے، اسے کام کرنے دیا جائے

Supreme Court of India - Pic : INN
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

 کورونا وائرس کی وجہ سے اِس وقت پوری دنیا پریشان   ہے اور ہر جگہ، ہر سطح پر اس سے بچنے کی کوششیں ہورہی  ہیں۔ انہی کوششوں  کے تحت سپریم کورٹ نے بھی بطور احتیاط  سپریم کورٹ میں عام داخلہ بند کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف انتہائی ضروری مقدمات کی سماعت ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کی جائے گی۔اسی درمیان ایک دوسرے معاملے میں سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس عرضی پر سماعت کرنے سے انکار کردیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ملک میں تمام عبادت گاہوں پر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔
 چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے کورونا وائرس  کے بڑھتے اثرات کو دیکھتے ہوئے پیر کو طے کیا کہ اب تاحکم ثانی  بے حد ضروری معاملات ہی  میںسماعت ہوگی اور یہ سماعت بھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہو گی۔عدالت عظمیٰ نے منگل کی شام ۵؍ بجے تک تمام وکلاء کے چیمبر کو سیل کرنے کا حکم بھی دیا۔جسٹس بوبڈے نے کہا کہ تمام وکلا سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے چیمبر سے اپنی فائلیں  اور دیگر کاغذات  ہٹا لیں۔شام تک تمام چیمبر سیل کر دئیے جائیں گے۔کورٹ نے کہا کہ اگلے حکم تک کسی’پیٹشنر اِن  پرسن‘ کو معاملے میں خود بحث کی اجازت نہیں دی جائے گی۔عدالت نے تمام  طرح کے داخلوں  پر پابندی لگا دی ہے۔
 عدالت نے کورٹ روم میں ویڈیو کانفرنسنگ کیلئے ایک بڑاٹیلی ویژن سیٹ لگایا ہے، جس کا لنک ویب سائٹ پر جاری کرے گی۔اس سے قبل سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر دشینت دوے نے دلیل پیش کی تھی کہ ہر شخص کورٹ آنے سے خوفزدہ ہے،ایسے میں عدالت میں چھٹیوں کے اعلان پر غور کیا جانا چاہئے۔اس پر غور کرنے کے بعد جسٹس بوبڈے نے کہا کہ اس میں بہت سے مسائل ہیں۔کورٹ میں چھٹیوں کا اعلان کرنے کے دوران کچھ مقدموں کی اپیل کی مقررہ وقت کی حد (لمٹیشن مدت) ختم ہو جائے گی۔اس بارے میں بھی غور کرنا ہوگا۔اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ عدالت لمٹیشن مدت بڑھانے پر غور کر سکتی ہے۔
 اس سلسلے میں  چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آدمی باہر نہیں جا رہا ہے۔اسلئے اسے کورٹ بند ہونے کی صورت میں بھی فائل کیا جا سکتا ہے لیکن دشینت  دوے نے کہا کہ ہر کوئی کیس  فائل کرنے کیلئے کورٹ آنے سے خوف زدہ ہے۔ انہوں  نے کہا کہ کورونا  کے پیش نظر عدالت کو ۴؍ ہفتے کیلئے بند کر دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی تلافی موسم گرما چھٹیوں میں کی جا سکتی ہے۔اس کے بعد عدالت نے ویڈیو کانفرنسگ  کے ذریعہ بحث کرنے یا پیش ہونے کا بندوبست کئے جانے پر غور کیا۔
  خیال رہے کہ کورونا   سے بچنے کیلئے ملک مکمل طورپر لاک ڈاؤن کی طرف گامزن ہے۔اتوار کو ’جنتا کرفیو‘  کے بعد پیر  سے ملک کے۷۵؍ اضلاع میں لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے تاکہ کورونا کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔اسی سلسلے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ میں بھی عام کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔ پیر کوصرف چیف جسٹس کی بنچ نےارجنٹ مقدمات کی سماعت کی۔علاوہ ازیں کیس سے منسلک وکلاء سے کہا گیا ہے کہ وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اپنی دلیل  پیش کر سکتے ہیں۔اس دوران سپریم کورٹ میں ایڈوکیٹ آن رپورٹ اسوسی ایشن نے قراردادپاس کرکے کہا ہے کہ ان کا کوئی بھی رکن کسی بھی صورت میں پیش نہیں ہو گا۔
 قابل غور ہے کہ کورونا وائرس  سے بچنے کیلئے سپریم کورٹ نے پہلے ہی وسیع تیاری کر رکھی ہے۔ ہولی کی تعطیلات کے بعد کورٹ میں سماعت کرنے والی بنچ کی تعداد کم کر دی گئی تھی۔ کورٹ روم میں بھیڑ کو کنٹرول کرنے کیلئے صرف کیس سے منسلک وکلاء ہی کو کورٹ میں جانے کی اجازت تھی۔یہی نہیں، کورٹ رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرز کی تعداد بھی طے کر دی گئی تھی۔ایک کورٹ میں صرف ۵؍ رپورٹر کو جانے کی اجازت تھی۔سپریم کورٹ میں جانے سے پہلے وکلاء اور دیگر افراد کی تھرمل اسکریننگ کے ساتھ ساتھ ان سے اس بات کی تحریری تفصیلات بھی  مانگی جا رہی تھی کہ انہوں نے حال ہی میں کسی  کورونا  متاثرہ ملک کے دورے پر گئے تھے یا نہیں۔
 دریں اثنا ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کورونا کے پیش نظر ملک کی تمام عبادت گاہوں کو مکمل طور پر بند کرنے سے متعلق ہدایت دینے کی عرضی پر سماعت سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ نے کورونا کی جانچ کیلئے ٹیسٹ  لیباریٹریوں کی تعداد میں اضافے کی ہدایات سےمتعلق مفاد عامہ کی عرضی پر بھی کوئی حکم جاری کرنے سے  انکار کر دیا۔ چیف جسٹس شرد  اروند بوبڈے اور جسٹس ایل  ناگیشور راؤ کے  بنچ نے اس معاملے میں کوئی حکم جاری کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ کورونا  کے خلاف حکومت بہترین پہل کر رہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ حکومت اچھا کام کر رہی ہے اسلئے اسے اپنا کام کرنے دیا جانا چاہئے۔درخواست گزار نے ملک بھر کے مذہبی مقامات کو بند کرنے کی ہدایات دینے کا یہ کہتے ہوئے مطالبہ کیا تھاکہ ان جگہوں پر نقل و حرکت بند ہو سکے، لیکن بنچ نے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ اس سلسلے میں درخواست گزار ریاستی حکومتوں کو میمورنڈم  دے سکتی ہیں اور حکومتیں ان کی نشاندہی پر غور بھی کرسکتی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK