Inquilab Logo

کورونا وائرس : خلیجی ممالک میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کا روزگار خطرہ میں

Updated: March 31, 2020, 3:03 PM IST | Agency | Dubai

ان ورکروں کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئی ہیں، انہیں یا تو من مانے طور پر برطرف یا پھر ملک بدر کیا جا رہا ہے، یہ صورتحال ان کی آمدنی پر انحصار کرنے والے کنبوں کیلئے ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے

Job cut in Gulf Countries - PIC : INN
خلیجی ممالک میں ملازمت خطرہ میں ۔ تصویر : آئی این این

کورونا وائرس کی وبانے پوری دنیا کی معیشت کی رفتار سست کردی ہے۔ ملک اوربیرون ملک کام کرنے والے مزدوراورملازمین غیریقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔خلیجی ممالک میں آجرین نےملازمین کی اُجرتیں روک دی ہیں یا انہیں ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔ بعض ورکرز کو وطن لوٹنا پڑا ہے یا پھر وہ پھنس گئے ہیں۔ایک ۲۷؍ سالہ ایشیائی نژاد انجینئر کے مطابق’’ پچھلے آٹھ دس دنوں سے شروع لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم قید ہوکر رہ گئے ہیں، ہمیں نہیں معلوم یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئی ہیں۔ حکومت کھانا تو فراہم کر رہی ہے لیکن کئی دنوں کے بعد اور وہ بھی بہت تھوڑی مقدار میں۔‘‘
 انسانی حقوق کیلئے سرگرم تنظیموں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں ڈھیر سارے لوگوں کو رہنا پڑ رہا ہے اور صاف صفائی کا خاطرخواہ انتظام بھی نہیں ہے، اس لئے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان ورکروں کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئی ہیں اور انہیں یا تو من مانے طور پر برطرف یا پھر ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال ان کی آمدنی پر انحصار کرنے والے کنبوں کیلئے ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
 ایچ آر ڈبلیو کے خلیجی امور سے وابستہ حبہ ضیاء الدین نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے مہاجر ملازمین کو لیبر گورننس سسٹم کے سبب پہلے سے ہی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان قوانین کی وجہ سے آجرین کو ان ورکرز پر بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں جن کا وہ بے جا استعمال اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔
 ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ خلیجی ملکوں میں کورونا وائرس کے اب تک۳۲۰۰؍ معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس کے بعد ورکروں کو’کیمپوں میں قید‘ کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ’’سماجی فاصلہ‘‘ پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ملکوں میں غیر ملکی ورکرز میں سب سے زیادہ تعداد ہندوستانی، بنگلہ دیشی، نیپالی اورپاکستانی باشندوں کی ہے۔ یہ دنیا بھر میں مہاجر ورکرز کی تعداد کا تقریباً ۱۰؍ فیصد ہیں۔ خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے بیشتر غیر ملکی مزدوروں کو خوف ہے کہ کورونا کے سبب انہیں جہاں صحت کو خطرہ لاحق ہے وہیں انہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
 سعودی عرب میںجہاں تقریباً۱۰؍ ملین غیر ملکی ورکرز کام کرتے ہیں، مزدوروں کو شکایت ہے کہ ان کے مالکان انہیں کام کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں جبکہ ان کے سعودی رفقائے کار کو تنخواہوں کے ساتھ قرنطینہ چھٹی دی جاری ہے۔ ایک مزدور نے بتایا کہ اس کے مالک نے کہا کہ اگر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو بغیر تنخواہ کے چھٹی پر چلا جائے لیکن وہ طبیعت کی خرابی کے باوجود کام کرنے پر مجبور ہے۔
 ریاض میں ایک عرب سفارت کار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بہت سے شعبوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے نجی سیکٹر میں کام کرنے والے کئی ورکرز کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ ان کے مالکان انہیں تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔سعودی عرب کے بعد غیر ملکی ورکرز کی سب سے زیا دہ ۸ء۷؍ ملین، تعداد متحدہ عرب امارات میں ہے، اس کے بعد کویت کا نمبر ہے جہاں یہ تعداد۲ء۸؍ ملین ہے۔
 کویت میں ایک سلون کی منیجر،مصری خاتون ام صابرین کا کہنا تھا کہ چونکہ حکومت نے غیر ضروری بزنس کو بند کرا دیا ہے اس لئے ان کی تنخواہ رو ک دی گئی۔ اب وہ اپنے آجر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بارے میں سوچ رہی ہیں لیکن بیشتر لوگ اتنی ہمت نہیں کر پارہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے اپنے وطن میں صحت کی صورت حال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اس صورت حال سے کافی فکر مند ہے۔ قطر میں آئی ایل او کے سربراہ ہوشن ہمایوں پور کہتے ہیں کہ اب تک بڑے پیمانے پر مزدوروں کو ملازمت سے نکالا نہیں گیا ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو اُن ملکوں کو بہت بڑے اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا جن سے ان مزدوروں کا تعلق ہے۔ اور اس کے اثرات انتہائی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK