Inquilab Logo

ججوں کی تقرری میں  آناکانی پر کورٹ برہم ، مرکز کو انتباہ

Updated: November 29, 2022, 11:01 AM IST | new Delhi

کہا کہ ’’ہمیں اس پر کوئی فیصلہ سنانے پر مجبور نہ کریں۔‘‘تقرری کے موجودہ نظام پر وزیر قانون کے سخت تبصرہ پر بھی برہمی کااظہار کیا،اٹارنی جنرل کو حکومت کو آگاہ کرنے کی ہدایت

Law Minister Kiran Rijiju with Chief Justice DY Chandrachud at a program. (file photo)
وزیر قانون کرن رجیجو ایک پروگرام میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُد کے ساتھ۔ (فائل فوٹو)

ججوں کی تقرری کے معاملے میں سپریم کورٹ اور حکومت آمنے سامنے آتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ کالیجیم سسٹم پروزیر قانون کرن رجیجو کی تنقید پر پیر کو سپریم کورٹ نے سخت برہمی کااظہار کیا اور کہا کہ ’’ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ کالیجیم کی سفارش کے باوجود حکومت  اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں تساہلی اور آناکانی کا مظاہرہ کررہی ہے۔  
 جسٹس سنجے کشن کول  جو ۲؍رکنی بنچ کی قیادت کررہے تھے، نے  اس بات پر برہمی کااظہار کیا کہ کالیجیم کے ذریعہ نام بھیجے جانے کے باوجود حکومت  ججوں کی تقرری نہیں کررہی ہے۔ انہوں  نے سوال کیا کہ کیا   ’نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن ‘ کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ناراضگی کے طورپر ایسا کیا جارہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’مسئلہ یہ ہے کہ ناموں کو منظوری نہیں دی جارہی ہے۔ سسٹم کام کیسے کرے گا؟ کچھ نام تو ڈیڑھ ڈیڑھ سال سے زیر التواء ہیں۔ ہم اپنی برہمی کااظہار بھی کرچکے ہیں...ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس لئے ناراض ہے کہ نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن  (این جے اے سی) نافذ نہیں ہوا۔ کیا (کالیجیم کے سفارش کردہ )  ناموں کو منظوری نہ دینے کی وجہ یہی ہے؟‘‘
 بنچ  جس  میں جسٹس اے ایس اوکا بھی شامل تھے،۲۰۲۱ء میں  بنگلور ایڈوکیٹس اسوسی ایشن کے ذریعہ حکومت کے خلاف داخل کردہ توہین عدالت کی پٹیشن پر سماعت کررہی تھی ۔ اسوسی ایشن نے کالیجیم  کی سفارش کے باوجود ۱۱؍ ججوں  کے ناموں کو منظوری نہ دینے پر حکومت کے خلاف یہ پٹیشن داخل کی ہے۔  اسوسی ایشن نے نشاندہی کی کہ حکومت کا یہ رویہ سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ حکومت کے لئے لازمی ہے کہ جن ناموں کو کالیجیم دوبارہ بھیج دے انہیں ۳؍  سے ۴؍ ہفتوں  میں منظورکرلیا جائے۔ 
 کورٹ نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ آپ ناموں کو روک سکتے ہیں،اس کی وجہ سے پورا نظام متاثر ہوتا ہے... اور کبھی کبھی  جب آپ تقرری کرتے بھی ہیں تو بھیجے گئے کچھ ناموں کو منظور کرلیتے ہیں اور کچھ کو چھوڑ دیتے  ہیں۔ آپ اس کے ذریعہ سینئرٹی کے نظام کو متاثر کررہے ہیں۔ ‘‘ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ  نے نشاندہی کی کہ کئی نام ۴؍ مہینوں سے  حکومت کے ہاں التواء کا شکار ہیں۔کورٹ نے اس معاملے میں  وقت کی پابندی  کی ضرورت پر زور دیا اور نشاندہی کی کہ ایک وکیل جس کے نام کی سفارش  جج کے طور پر کی گئی تھی اس کا انتقال ہوگیا اور دوسرے نے جج بننے کیلئے دی گئی  آمادگی ہی واپس لے لی۔ 
 سپریم کورٹ  نے اس برہمی کا اظہار ٹائمز ناؤ پر وزیر قانون کرن رجیجو کے اس انٹرویو کے بعد کیا جس میں انہوں نے کالجیم سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں  اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ ان کے مطابق ججوں کی تقرری کے اس نظام  کو  ملک  کے عوام کی بھی تائید حاصل نہیں ہے۔ رجیجو  نے کہا کہ حکومت کا اختیار کالیجیم کےتجویز کردہ ناموں کو منظور کرنے تک ہی محدود  نہیں  ہے۔دوسری طرف جسٹس کشن کول نے کہا کہ کالیجیم سسٹم پر کسی کو تحفظات ہوسکتے ہیں مگر جب تک یہ نافذ ہے، یہی  ملک کا قانون ہے۔ دراصل  سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر  اور سینئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے بنچ کی توجہ وزیر قانون کرن رجیجو کے ان تبصروں کی جانب مبذول کرائی۔  وکاس سنگھ کے مطابق رجیجو نے سپریم کورٹ پر برہمی کااظہار کرتےہوئے  انٹرویو میں کہا کہ ’’یہ کبھی مت کہنا کہ حکومت فائلوں کو دبا کر بیٹھی ہے، اگر ایسا ہے تو حکومت کے پاس فائل بھیجئے ہی مت، آپ خود تقرری کرلیجئے،  خود سب کچھ کیجئے۔‘‘وزیر کے اس تبصرہ پرناراضگی کااظہار کرتے ہوئے جسٹس کشن کول نے کہا کہ ’’جب کوئی اعلیٰ  عہدہ پر فائز اس طرح کی بات کرتا ہے تو ....ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔‘‘ا س کے ساتھ ہی جج نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اٹارنی جنرل صاحب، میں نے اب تک میڈیا کی  رپورٹوں کو نظر انداز کیا، مگر یہ بہت ہی اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کی طرف سے آرہاہے۔ وہ بھی ایک انٹرویو میں۔(فی الحال) میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔‘‘ 
 اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے جج نے کالجیم سسٹم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس پوری کارروائی میں وقت لگتا ہے، انٹیلی جنس بیورو سے معلومات لی جاتی ہے، آپ کی رائے لی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کی کالیجیم آپ کی آراء پر غور کرنے کے بعد ہی ناموں کی سفارش کرتی ہے، ایک بار کالیجیم کی جانب سے جب  ناموں کی دوبارہ توثیق کر دی جائے تو پھرمعاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ فی الحال یہی قانون ہے۔‘‘ جسٹس کول نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بنچ کے جذبات‘‘ سے حکومت کو آگاہ کردیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کے قانون کی پاسداری ہو۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے معاملے کی شنوائی ۸؍ دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی ہے۔ کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے تنبیہی  انداز میںکہا کہ ’’آپ دونوں ہی اتنے سینئر ہیں کہ بنچ کے جذبات سے حکومت کو آگاہ کر دیں۔ مہربانی کرکے مسئلے کو حل کریں، ہمیں اس پر کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔‘‘  بنچ  نے حکومت کو آگاہ کیا کہ اس  سلسلے میں توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کرکے عدالت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK