Inquilab Logo

کورٹ نے سونو سود اورذیشان کے کام کی ستائش کی لیکن غیر قانونی طور دویات کے حصول پرسوال اٹھایا

Updated: June 17, 2021, 8:25 AM IST | nadeem asran | Mumbai

مبے ہائی کورٹ نے سیاست داں ذیشان صدیقی اور فلم اداکار سونو سود کے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی مدد کے لئے انسانی نقطہ نظر سے اٹھائے قدم کی ستائش کی لیکن ساتھ ہی ویکسین ، ادویات اور آکسیجن کے غیر قانونی حصول پرناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال بھی اٹھایا ہے۔

zeeshan siddique:Picture:PTI
رذیشان صدیقی تصویر مڈڈے

:بامبے ہائی کورٹ نے سیاست داں ذیشان صدیقی اور فلم اداکار سونو سود کے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی مدد کے لئے انسانی نقطہ نظر سے اٹھائے قدم کی  ستائش کی لیکن ساتھ ہی ویکسین ، ادویات اور آکسیجن  کے غیر قانونی حصول پرناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال بھی اٹھایا ہے۔
  اس سلسلے میںحکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل آشوتوش کھمبا کونی نے بتایا کہ ’’ سوشل میڈیا کے ذریعہ شہری با با صدیقی سے کورونا متاثرہ مریضوں کے لئے مدد مانگتےتھے جبکہ با با صدیقی بی ڈی آر ٹرسٹ کے توسط سے مدد فراہم کرتے تھے ، اس لئے ٹرسٹ کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔‘‘ وکیل نے صفائی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ٹرسٹ کے خلاف کیس اس لئے درج کیا گیا ہے کہ اس کے پاس قانونی طور پر کورونا سے متعلق ویکسین یا میڈیسن حاصل کرنے کا لائسنس نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ٹرسٹ کو ڈائریکٹر دھیر شاہ اور فارمیسی کے۴؍دیگر ڈائریکٹروں کے ذریعہ دوائیں سپلائی کرنے کی اطلاع کورٹ کو دی گئی ہے۔اس پر کورٹ نے بابا صدیقی کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق جاننا چاہاتو وکیل نے شکایت میں بابا صدیقی کا نام درج نہ کرنے کی اطلاع دیتے ہوئےصرف ابتدائی قدم اٹھائے جانے سے آگاہ کیا ۔
 ایڈوکیٹ جنرل نے اس ضمن میں صفائی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’ بابا صدیقی ضرورتمندوں کو ٹرسٹ کےپاس بھیجتے تھے، ذاتی طور پر ادویات فراہم نہیں کرتے تھے اور اس لئے ہی ان کا نام شکایت میں درج نہیں کیا گیا ہے ۔ اس پر جسٹس کلکرنی نے کہا کہ ’’ ٹرسٹ کے پاس بھیج کر ادویات فراہم کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بغیرلائسنس کے ادویات فراہم کرنا قانوناً جرم نہیں ہے ۔‘‘ اس سوال پر ایڈوکیٹ جنرل نے کوئی جواب نہیں دیا تو کورٹ نے کہا کہ اس کا مطلب بنا لائسنس کے ادویات فراہم کرنا جرم ہے ۔ 
  اسی درمیان ایڈوکیٹ جنرل کھمبا کونی نے سونو سود کے تعلق سے بتایا کہ ضرورت مند افراد ایک دوسرے سے سونو سود کے ذریعہ ریمیڈیسویر انجکشن ملنے کی اطلاع پر اس تک پہنچتے تھے جبکہ تفتیش میں پتہ چلا کہ گوریگاؤں کی لائف لائن میڈیکل کیئر اور اسپتال سونو سود کو ریمیڈیسویر فراہم کرتے تھے ۔مذکورہ اسپتال سپلا کی بھیونڈی یونٹ سے ریمیڈیسور حاصل کرتے تھے، اس سلسلہ میں سپلا سے تفتیش کرنا ابھی باقی ہے ۔اس پر دو رکنی بینچ کے جسٹس ایس پی دیشمکھ اور جسٹس جی ایس کلکرنی نے کہا کہ ’’ اس کا مطلب دونوں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ صرف حکومت کو ریمیڈیسویر خریدنےکا اختیار ہےاور وہ اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ منتخب شدہ فارمیسی سے غیر قانونی طریقہ سے ریمیڈیسویر خریدی جاسکتی ہے اور وہ اسے خرید کر ضرورت مندوں میں تقسیم کرکے ان کی نظروں میں مسیحا بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘
 کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انسانی نقطہ نظر سے وہ لوگوںکی مدد کررہے ہیں لیکن حکومت جو کورونا سے متاثرہ مریضوں کو راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ، اس طرح کی کالا بازاری کرنے والوں کے سبب عوام کی نظروں میں رسوا ہورہی ہے ۔کورٹ نے کہا کہ ’’ ان کی طرح کل کو ہر کوئی سوشل میڈیا پر مدد مانگنے والوں کو یہ کہہ کر مدد فراہم کردیگا کہ حکومت اس میں ناکام ہے لیکن تمہیں مدد فراہم کریں گے، لیکن کیسے، اس بات کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے ۔ عدالت نےجمعہ تک سماعت کو ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ’’ مذکورہ بالا دونوں شخصیات نے جو ضرورت مندوں کو مدد فراہم کی ہے اس کی باریکی بینی سے جانچ ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیر لائسنس اور غیر قانونی طریقہ سے ویکسین یا ادویات حاصل کرنا بھی قانوناً جرم ہے ۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK