Inquilab Logo

آکسیجن بیڈ نہ ہونے کے سبب در در بھٹکنے کے بعد نوجوان کی موت

Updated: April 14, 2021, 9:18 AM IST | sahadat khan | Mumbai

۲۸؍ سالہ مظہر کو رشتے دار ایمبولنس میں ۸؍ گھنٹے تک ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال لے جاتے رہے مگر کہیں جگہ نہ ملی، بی کے سی کووڈ سینٹر میں داخل کیا گیا مگر علاج سے پہلے ہی مریض چل بسا

Death due to lack of oxygen bed Photo Midday
کسیجن بیڈ نہ ہونے کے سبب موت تصور مڈڈے

طبی سہولیات کے فقدان سے کوروناوائرس اور ڈائیلاسس کے مرض میں مبتلا مریض اور ان کےمتعلقین کےپریشان ہونےکا سلسلہ رک نہیں رہاہے ۔ جس کی تازہ مثال وڈالا کے ۲۸؍سالہ نوجوان کی بروقت آکسیجن بیڈ اور وینٹی لیٹر نہ ملنے سے ہونے والی موت ہے۔ آکسیجن بیڈ کیلئے متعددبی ایم سی اور پرائیویٹ اسپتالوں سےمایوس ہوکر لوٹنے کے بعد اس نوجوان کو  بی کےسی کووڈ جمبوسینٹر   کے جنرل وارڈ میں میں بیڈ تو ملا لیکن اس کیلئے  اسے اتنا طویل انتظار کرنا پڑا کہ علاج میں تاخیر ہو گئی اور وہ چل بسا۔  متوفی نوجوان کےساتھ اسپتالوںکا چکرلگانےوالوںمیں شامل ایک ڈ اکٹر کے کوروناوائرس سےمتاثر ہونے کی اطلاع بھی موصول ہوئی ہے۔ انہیں  علاج کیلئے وڈالا کے ایک اسپتال میں داخل کیاگیاہے۔ طبی سہولیات کے نہ ملنے سے نوجوان کی موت پر  رشتے دار سخت ناراض ہیں۔ 
  وڈالاکے ڈاکٹر حیدر سید نے بتایاکہ  مظہر عثمان شیخ کوسانس لینےمیں بہت تکلیف ہورہی تھی۔ اس کا آکسیجن لیول کافی گر گیاتھا اور آکسیجن ملنا  بہت ضروری تھالیکن وقت پر آکسیجن کا انتظام نہ ہونے سے اس کی موت ہوگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ اس کی موت کا پورامنظر میری آنکھوںکےسامنے اب بھی گردش کررہاہے۔ ہم اسے کئی سرکاری اسپتال مثلاً کے ای ایم اورجے جے لے کر گئے ۔ہراسپتال  میں  آکسیجن اور وینٹی لیٹر خالی نہ ہونے کی بنا پر اسے داخل کرنے سےمنع کردیا۔‘‘ حیدر سید کے مطابق ’’ پرائیویٹ اسپتالوںمیں بھی آکسیجن بیڈاور وینٹی لیٹر کی سہولت نہیں تھی ، بالآخر ہم اسے بی کے سی کووڈ جمبوسینٹر لےگئے۔جہاں ڈاکٹروںنے ۴؍گھنٹے تک ہمیں اسپتال کےباہر ہی انتظارکروایا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ’’  اس دوران میں نے بی ایم سی کے ہیلپ لائن نمبر پر رابطہ کیااور ان سے مریض کیلئے بیڈ فراہم کرنےکی اپیل کی لیکن ان کی طرف سے بھی مدد فراہم نہیں کی گئی ۔ یہاں سے ہمیں یہ کہاگیاکہ بیڈ خالی ہوتے ہی اطلاع دی جائے گی۔‘‘ حیدر سید بتاتے  ہیں’’ دوسری جانب مریض کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔وہ ایمبولینس میں لیٹا پیر پٹک رہاتھا۔ اسے سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی۔ اس کےگھروالے ا س کی حالت دیکھ کر رورہےتھے۔ ‘‘ اداس لہجے میں حیدر کہتے ہیں’’یہ سب دیکھ کر میری قوت برداشت نے جواب دے دیا۔ غصہ میں میں نےکووڈ سینٹر کے ذمہ دار ڈاکٹر سےبحث بھی کی اور پوچھا کہ جب مریض مر جائے گا تب اسے اسپتال داخل کیاجائے گا؟ڈاکٹرکہہ رہاتھاکہ جب بیڈ خالی نہیں ہے تو میںمریض کو کہاں ایڈجسٹ کروں؟ بات بڑھتی گئی ۔ پھر میںنے یہاں کے ڈاکٹروں سے کہاکہ اگر مریض کو خدانخواستہ کچھ ہواتو میں تم سب کےخلاف ایف آئی آر کروں گا۔‘‘ ان کے مطابق ’’ تب جاکر  ڈاکٹر نےمریض کو کووڈ سینٹر کے جنرل وارڈ میں داخل کیالیکن اس وارڈمیں وینٹی لیٹر اور آکسیجن  بیڈ نہیں تھا ۔ آخر ایک گھنٹہ کےبعد مظہر کی موت ہو گئی ۔‘‘
  ڈاکٹر حیدر سید کےمطابق ’’ افسوس ہورہاہےکہ طبی سہولیات نہ ہونے سےمظہر کی موت ہوگئی لیکن مظہر کی موت کی پوری ذمہ داری ریاستی حکومت پرعائدہوتی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ’’ کورونا کی دوسری لہر آئے گی اس کا حکومت کو علم تھا اس کےباوجود یہ کس طرح کی تیاری کی گئی تھی کہ ایک نوجوان وینٹی لیٹر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سےاس دنیاسے رخصت ہوگیااور حکومت منہ تاکتی رہ گئی۔ ‘‘ یہ اطلاع انہوں نے ہی دی کہ ’’بی کے سی جمبوکووڈ سینٹر میں صرف ۱۲۸؍وینٹی لیٹر کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ اتنے بڑے سینٹرمیں اتنی کم تعدادمیں وینٹی لیٹر کی سہولت کیامعنی رکھتی ہے؟کووڈ کےمریضوں کےعلاج کیلئے جس طرح کی عام سی تیاری کی گئی ہے اس سے حکومت کی نااہلی کا علم ہوتاہے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر حیدر سید نےبتایاکہ ’’بی کے سی جمبوکووڈ سینٹر میں آنے جانے سے مجھے بھی کورونا کا کچھ اثرہواہے۔ اس لئے میں وڈالاکے گلیکسی اسپتال میں زیر علاج ہوںلیکن گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ منگل کوجو رپورٹ آئی ہے ۔ اس کےمطابق مجھے کوروناکا ہلکا اثر ہواہے جو دو ائوں سے ٹھیک ہورہاہے۔‘‘
 کملانگر ،وڈالاکے جاوید شیخ نے بتایاکہ ’’ مظہروجے نگر، پانڈیا گلی ،سنگم نگرمیں رہتاتھا۔ گھر کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔وہ گردہ کےمرض میں مبتلاتھا اور ڈائیلاسس پرتھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ’’  اسے علاج کیلئےایک اسپتال میں داخل کیاگیاتھا جہاں اس کی کورونارپورٹ پازیٹیو آئی تھی۔ اس اسپتال میں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہورہی تھی۔ ا س کےکہنے پر ہی اس اسپتال سے نکال کردیگر اسپتال میں منتقل کرنےکیلئے ایک ایمبولینس میںاسے لے کر ۸؍تا ۱۰؍اسپتالوںمیں لے جایاگیا مگر ہر اسپتال نے اسے داخل نہیں کرنے سے منع کردیا۔‘‘ جاوید کے مطابق ’’اس دوران ایمبولینس کا کرایہ ۵۰؍ہزار روپے ہوگیاتھا۔  ‘‘ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بی کے سی جمبو کووڈ سینٹر  کے ڈاکٹروں نے مظہر کی کورونا رپورٹ کو نگیٹیو قرار دیا تھا لہٰذا اس کی تدفین  وڈالا میں  معمول کے مطابق عمل میں آئی۔‘‘

oxygen Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK