Inquilab Logo

شمال مشرقی دہلی میں تشدد سے مرنے والوں کی تعداد ۲۳ہوگئی، حالات کشیدہ

Updated: February 26, 2020, 2:06 PM IST | Agency | New Delhi

شمال مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (سي اے اے ) کے خلاف رونما ہوئے تشدد سے اب تک مرنے والوں کی تعداد ۲۳ ہو گئی ہے۔ علاقے میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہونے کے باوجود بھی گوکل پوری میں آج صبح کچھ فسادیوں نے ایک دکان میں آگ لگا دی۔ پورے ضلع میں اضافی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے اور پولیس کے اعلی افسران مسلسل حالات پر نظر بنائے ہوئے ہیں لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔گرو تیغ بہادر اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سنیل کمار گوتم کے مطابق ۱۸۹ زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا جس میں سے ۲۳ لوگوں کی موت ہو چکی ہے ۔

  شمال مشرقی دہلی میں تشدد سے مرنے والوں کی تعداد ۲۳ہوگئی، حالات کشیدہ۔ تصویر : پی ٹی آئی
شمال مشرقی دہلی میں تشدد سے مرنے والوں کی تعداد ۲۳ہوگئی، حالات کشیدہ۔ تصویر : پی ٹی آئی

نئی دہلی : وزیر اعظم مودی نے دہلی تشدد پر ٹویٹ کیا

دہلی میں ہونے والے تشدد پر، وزیر اعظم مودی نے ٹویٹ کیا ہے، پولیس اور تمام ایجنسیاں مل کر امن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی بھی اپیل کی ہے۔ اسی دوران ، شمالی مشرقی دہلی میں پیر اور منگل کو ہونے والے تشدد کے بعد،آہستہ آہستہ امن واپس آرہا ہے اور بیشتر مقامات پر صورتحال معمول پر آرہی ہے۔ ادھر، تشدد کے بعد ، دہشت کی فضا برقرار ہے۔ موصولہ اطلاع کے مطابق برج پوری میں لوگوں نے کمبے کے ساتھ گھر چھوڑنا شروع کردیا ہے۔

کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے وزیر داخلہ کا استعفیٰ مانگا

کانگریس کے عبوری صدر سونیا گاندھی نے مرکزی حکومت کو دہلی میں ہونے والے تشدد کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس خاموش تماشائی کی حیثیت سے تشدد کو دیکھ رہی ہے۔ جب تشدد ہو رہے تھے، اس وقت وزیر اعظم کہاں تھے؟ انہوں نے کہا کہ دہلی تشدد کی پیچھے ایک سازش ہے۔ ملک نے دہلی اسمبلی الیکش کے دوران بھی یہ دیکھا تھا۔ بی جے پی کے بہت سے لیڈروں نے اشتعال انگیز تبصرے کئے اور نفرت کا ماحول پیدا کیا تھا۔سونیا گاندھی نے کہا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ہنگامی میٹنگ ہوئی،جس میں دہلی کے تشدد پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔

سونیا گاندھی نے کہا کہ دہلی کی صورتحال ان دنوں بہت تشویشناک ہے۔ پچھلے ۷۲ گھنٹوں میں ۲۰ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دہلی پولیس پچھلے ۷۲ گھنٹوں میں مفلوج بنی ہوئی ہے۔ مرنے والوں میں ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی شامل ہے اور سیکڑوں افراد اسپتال میں ہیں۔ شمال مشرقی دہلی کی گلیوں میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ دہلی کی موجودہ حالت کے لئے مرکز اور مرکزی وزیر داخلہ ذمہ دار ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہئے۔

شمال مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (سي اے اے ) کے خلاف رونما ہوئے  تشدد سے اب تک  مرنے والوں کی تعداد ۲۰ ہو گئی ہے۔ علاقے میں دفعہ ۱۴۴  نافذ ہونے کے باوجود بھی گوکل پوری میں آج صبح کچھ فسادیوں  نے ایک دکان میں آگ لگا دی۔ پورے ضلع میں اضافی سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے اور پولیس کے اعلی افسران مسلسل حالات پر نظر بنائے ہوئے ہیں لیکن حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔گرو تیغ بہادر اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سنیل کمار گوتم کے مطابق ۱۸۹ زخمی افراد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا جس میں سے ۲۳ لوگوں کی موت ہو چکی ہے ۔اسپتال ذرائع نے بتایا کہ دس سے زائد افراد کی حالت اب بھی  نازک بنی ہوئی ہے ۔ اس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے ۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے شمال مشرقی دہلی کے کچھ علاقوں کی صورتحال کو سنگین قرار دیتے  ہوئے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ کیجریوال نے آج ٹویٹ کر کے کہا کہ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر کرفیو  نافذ کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ رہے ہیں۔ کیجریوال نے کہا کہ وہ شب بھر بڑی تعداد میں لوگوں کے رابطے میں تھے۔ حالات  انتہائی سنگین ہیں ۔ پولیس کی تمام کوششوں کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں ۔ واضح ر ہے کہ اتوار کو بی جے پی کے لیڈ ر کَپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریرکے بعد پیر کو دن بھر پورے ضلع میں پر تشدد واقعات رونما ہوتے رہے ۔ شوروم سے بڑی چھوٹی دکانوں میں آگ لگا دی گئی ۔ ایک پٹرول پمپ کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ گوکل پوری میں ٹائر مارکیٹ میں آگ لگا دی گئی جسے بجھانے میں فائر بریگیڈ کے عملے کو سخت مشقت کرنی پڑی۔ اس مارکٹ کی تقریباًسبھی دکانیں جل کر خاکستر ہو گئیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK