Inquilab Logo

عبادتگاہ قانون پر مرکز سے موقف واضح کرنے کا مطالبہ

Updated: May 19, 2022, 10:16 AM IST | Agency | New Delhi

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ مطالبہ مرکزی حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں سے کیا ہے۔ گیان واپی مسجد کیس لڑنے کیلئے بورڈ کی قانونی ٹیم مسلم فریق کی مدد کرے گی

Varanasi History Gyanvapi Mosque which is a target of sectarians these days.Picture:PTI
وارانسی کی تاریخی گیان واپی مسجد جو ان دنوں فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے ۔تصویر: پی ٹی آئی

 ملک میں مسلمانوں کے نمائندہ ادارے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے گیان واپی مسجد کیس اور دیگر مسائل پر وارانسی میں اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیاتھا جس میں کچھ اہم فیصلے  کئےگئے۔ اس کمیٹی کا سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ مرکزی حکومت سمیت تمام ریاستی حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ ۱۹۹۱ء میں بنائے گئے عبادت گاہ قانون پر اپنا موقف واضح کریں۔ کمیٹی کی میٹنگ میں یہ بھی کہا گیا کہ گیان واپی مسجد کا معاملہ چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ بورڈ کی لیگل کمیٹی کیس لڑنے میں مسلم فریق کی ہر ممکن مدد کرے گی۔   بورڈ کے مطابق اس وقت عوام کے سامنے ہر چیزادھوری پیش کی جا رہی ہے   اس کے لئے پمفلٹ اور کتابیں شائع کرنے کا کام کیا جائے گا، جن میں حقائق کے ساتھ معلومات ہوں گی اور انہیں عوام تک پہنچایا جائے گا۔اجلاس میں گیان واپی مسجد، ٹیپو سلطان مسجد سمیت ملک کے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ اجلاس تقریباً ۲؍ گھنٹے تک جاری رہا جس میں بورڈ کے ۴۵؍ممبران آن لائن میڈیم کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے رہے اور انہوں نے ان موضوعات پر خصوصی طور پر تبالہ خیال کیا۔ آئی اے این ایس کو معلومات دیتے ہوئے بورڈ کے  ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کی قانونی کمیٹی مسلم فریق کی مکمل مدد کرے گی جبکہ منگل کی سماعت کے دوران  عدالت میں جو باتیں سامنے آئی ہیں ان پر کام کرتے ہوئے ان کی مزید مدد  کی جائے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی غلط باتیں عوام کے سامنے لائی جا رہی ہیں تاکہ عوام کے درمیان فرقہ وارانہ تقسیم ہو۔ بورڈ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس کی آواز  موثر طریقے سےعوام تک نہیں پہنچ رہی کیونکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ اس  لئے  وہ پمفلٹ، کتابوں اور دیگر ذرائع کی مدد سے عوام تک پہنچیں گے۔  بورڈ نے بتایا کہ ۱۹۹۱ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے عبادت گاہ کا قانون (پلیسیز آف ورشپ ایکٹ) منظور کیا تھا۔ اس قانون کے مطابق ۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء سے پہلے وجود میں آنے والی کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اسے ایک سے تین سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ایودھیا کا معاملہ اس وقت عدالت میں تھا، اس  لئے اسے اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا ۔ اب ہندوتوا وادیوں کی جانب سے اس قانون پر ہی سوال اٹھایا جارہا ہے جس کی وجہ سے  یہ ضروری ہے کہ حکومت  اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرے اور بتائے کہ وہ اس قانون کے نفاذ پر کیا موقف رکھتی ہے۔ساتھ ہی دیگر پارٹیوں سے بھی اپنا اپنا موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اجلاس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بھی فیصلہ کیا گیا  ساتھ ہی ملک  کے موجودہ معاملات کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی گئی۔  اس سلسلے میں بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ٹویٹ کرکے  اپیل کی ہے کہ ملک بھر کے ائمہ کرام آئندہ کم ازکم تین ہفتے جمعہ سے پہلے مساجد کی اہمیت و ضرورت، ان کو آباد رکھنے  اور تحفظ کے سلسلے میں مسلمانوں کی ذمہ داریاںاور گیان واپی مسجد کی  درست تاریخ جیسے موضوعات پر خطاب کریں۔ اس کے لئے بورڈ کی طرف سے جمعہ کا خصوصی بیان بھی جاری کیا جارہا ہے ۔ 
گیان واپی :وکلاء کی ہڑتال کے سبب سماعت نہیں ہو سکی 
  دوسری طرف گیان واپی مسجد احاطے کے ویڈیو گرافی سروے معاملے میں بدھ کو وکیلوں کی ہڑتال کی وجہ سے مقامی عدالت میں شنوائی نہیں ہوسکی۔ریاستی حکومت کے ایک  خط میں وکیلوں کے لئے استعمال کی گئی زبان کی مخالفت میں وکیلوں نے بدھ کو ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔وارانسی بار اسوسی ایشن کے  ذمہ داری آنند مشرا نے  بتایا کہ ریاستی حکومت کے ایک خصوصی سیکریٹری کی جانب سے جاری ایک خط میں قابل اعتراض  الفاظ کے استعمال کی مخالفت میں وکیلوں نے ایک دن کی  ہڑتال کا فیصلہ کیا تھا۔موصولہ اطلاع  کے مطابق اس معاملے میں ہندو فریق کے وکیل نے بار اسوسی ایشن کو خط لکھ کر گیا ن واپی معاملے کی سماعت جاری رکھنے کی اپیل کی تھی لیکن وکلاء ہڑتال پر بضد تھے جس کی وجہ سے کام کاج نہیں ہو سکا ۔  یاد رہے کہ سول جج(سینئر ڈویژن) روی کمار دیواکر کی عدالت میں بدھ کو  ہندو فریق  اور سرکاری وکیل کی عرضیوں پر سماعت ہونی تھی۔ ہندو  فریق نے عدالت سے وضو خانہ(حوض) کے پاس موجود تہہ خانے کا سروے کرانےکا مطالبہ کیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK