Inquilab Logo

کووِڈ وارڈ کے سبب اسپتالوں میں دیگرمریضوںکو دقتیں

Updated: July 11, 2021, 5:14 AM IST | saadat khan | Mumbai

کے ای ایم ،نائر اور سائن اسپتال میں بیڈ خالی نہ ہونےکے سبب مریضوں کوعلاج کیلئے داخل نہیں کیاجارہاہے،مریضپرائیویٹ اسپتال میں علاج کروانے پر مجبور، کے ای ایم اسپتال میں۱۵؍ دنوں تک آئی سی یو میںجگہ نہ ملنے کی وجہ سے ایک مریض کی موت

Other patients at a government hospital like Nair are unable to receive treatment due to Kwid. (File photo)
کووِڈ کے سبب نائر جیسے سرکاری اسپتال میںدیگر مریضوںکو علاج کی سہولت نہیںمل پا رہی ہے۔(فائل فوٹو)

:شہرومضافات کے بیشتر اسپتالوںمیںکووِڈ وارڈ کے مختص ہونےسے دیگرمریضوں کے علاج میں دقت آر ہی ہے۔ کووِڈ وارڈ کی وجہ سے نائر ،کے ای ایم اور سائن اسپتال میں دیگر امراض کے مریضوںکو  اسپتال میں داخل نہیں کیاجارہاہے ۔ بیڈ ، آئی سی یو اور و ینٹی لیٹر کے خالی نہ ہونے سے مریضوںکو واپس کردیاجارہاہے جس کی وجہ سے مریض پرائیویٹ اسپتال میں علاج کروانے پر مجبور ہیں۔ کے ای ایم اسپتال میں ۱۵؍ دنوں تک آئی سی یو میںجگہ نہ ملنے سے ایک مریض کی  موت ہوگئی ۔ اسی طرح نائر اسپتال سے علاج کروانےوالے کینسر کے مریض کو نائر اسپتال میں ہی بیڈ نہ ہونے سے داخل نہیں کیاگیا۔اس طرح کی پریشانیوںسے مریض دوچار ہیں۔
 شانتی نگر ،بھیونڈی کے ۲۵؍سالہ حافظ محمد شمیم نے بتایاکہ ’’میرے پہلے بچے کی پیدائش جمعرات کو گھر پر ہوئی ۔ جمعہ کو اس کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ ڈاکٹروںنے بتایاکہ اس کے جسم میں گندا پانی بھر گیاہے۔ بھیونڈی کے ایک اسپتال میں اسے داخل کیاگیا۔ اسپتال والوںنے اسےممبئی لے جانے کا مشورہ دیا۔ بچےکو ممبئی لے جانےکیلئے ایمبولینس کا انتظام کرنا پہلا مشکل مرحلہ تھا۔سیاست داں کے نام اورتصویر والی ایمبولینس  میں ممبئی جانےکیلئے۲؍ہزار روپے دینے پڑے۔ خیر کسی طرح ہم سب سے پہلے جے جے اسپتال پہنچے تو وہاں ڈاکٹروںنے کہاکہ این آئی سی یو میں جگہ نہیں ہے۔ہم بچے کو داخل نہیں کرسکتے۔بچے کو نائر اسپتال لے جائیں ۔ ڈاکٹروںکے مشورہ پربچے کو نائر اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروںنے یہی جواز پیش کیاکہ ہمارے پاس صرف ۱۰؍ این آئی سی یو بیڈ ہے ، وہ سب فل ہے۔ کسی کو ہٹا کر بچے کو داخل نہیں کیاجاسکتا ۔ بڑی منت سماجت کی لیکن کو ئی حل نہیں نکلا۔ مایوس ہوکر تھانےکے ٹائٹن اسپتال میں بچے کوداخل کروانے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی این آئی سی یو بیڈ نہیں ملا۔ گھوم پھر کر دوبارہ بھیونڈی کے گورے اسپتال میں بچے کو داخل کردیا ۔جہاں بچہ زیر علاج ہے مگر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔جمعہ کی رات ۸؍ تا صبح ۵؍بجے تک بھیونڈی اور ممبئی کے کئی اسپتالوںمیں کوشش کےباوجود بچے کو داخل نہیں کیاگیا۔ مجموعی طورپر ۵؍ہزار روپے ایمبولینس والے نے لے لئے۔سمجھ میں نہیں آتاہےکہ سرکاری اسپتالوںمیں عام مریضوںکیلئے سہولیات کا فقدان کیوں ہے؟‘‘
 کرلا کے شیوم سنگھ نے بتایاکہ ’’ شالیمار کرلا میں رہائش پزیر ۱۴؍سالہ نبیل شیخ کو کسی نے سر پر پتھر مار دیاتھا ۔ جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگیاتھا۔ ۱۵؍دن قبل اسے علاج کیلئے کے ای ایم اسپتال داخل کیاگیاتھا۔ اصل میں اس کا علاج نیرو وارڈ میں ہونا چاہئے مگر۱۴؍دنو ں تک اسے کے ای ایم کے جنرل وارڈ میں ہی رکھا گیا۔ اس کا وقت پر علاج نہیں کیاگیا۔ جس کی وجہ سے جمعرات کو اس کی موت ہوگئی ۔ اسے آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرور ت تھی مگر اسپتال میں آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کے خالی نہ ہونےکا عذر پیش کرکے نبیل کو ۱۴؍دنوں تک جنرل وارڈ میں ہی رکھا گیا۔ علاج میں تاخیر ہونے سے اس کی موت ہوئی ہے ۔‘‘
  میڈیکل سوشل ورکر شعیب ہاشمی نے بتایاکہ ’’ان دنوں شہرومضافات کےبیشتر اسپتالوںمیں کووِڈ وارڈ کے مختص کئے جانے سے عام مریضوںکے علاج میں شدید دشواری آرہی ہے۔ جس کی وجہ سے مریضوںکو پرائیویٹ اسپتال میں علاج کروانا پڑرہاہے یا جو پرائیویٹ اسپتال کی فیس نہیں برداشت کرسکتےوہ یوں ہی بیمار پڑے ہیں اور سرکاری اسپتال میں اپنے علاج کےمنتظر ہیں۔ بالخصو ص نائر اسپتال میں کووڈ کے زیادہ وارڈ ہونے سے یہاں کےدیگر مریضوں کاعلاج نہیں ہو پا رہا ہے۔میرے پاس کینسر کا ایک مریض آیاتھا جس کا علاج نائر اسپتال سے جاری ہے ۔ اسے کیموتھیراپی کروانی تھی مگر ڈاکٹروںنے بیڈ نہ ہونےسے اس کا علاج کرنے سے منع کردیا۔ وہ مریض پریشان ہے کہ وہ اپنا کیموتھیر اپی کہاں کرائے۔ اسے نائر اسپتال میں ہی کیموتھیراپی کروانی ہے۔ اس طرح دیگرمریض بھی اسپتال میں بیڈ ، آئی سی یو اور وینٹی لیٹر وغیرہ کے خالی نہ ہونےسے بہت پریشا ن ہیں۔‘‘ اس ضمن میں مذکورہ دونوں اسپتال کےڈین سے رابطہ کرنےکی کوشش کی گئی مگر ان لوگو ںنے موبائل ریسیونہیں کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK