Inquilab Logo

پارلیمنٹ میں بجٹ پربحث ،حکومت کو سرمایہ کاری میں اضافہ کا مشورہ

Updated: February 11, 2020, 5:23 PM IST | Agency | New Delhi

راجیہ سبھا میں سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی معیشت بڑے بحران میں ہے اور حکومت کو نوجوانوں کو روزگار مہیاکرانے کے ساتھ ساتھ کھپت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدام کرنے چاہئیں،حکومت نے اقتصادی سروے میں معیشت کو صحیح سمت میں لے جانے کے اشارے دئیے لیکن بجٹ میں اس کی جھلک نہیں نظر آئی

پی چدمبرم ۔ تصویر : آئی این این
پی چدمبرم ۔ تصویر : آئی این این

 نئی دہلی : پیر کو پارلیمنٹ میںبجٹ اجلاس کے دوران عام بجٹ کے ساتھ ساتھ  ملک کی معاشی صورتحال پربحث ہوئی جس میںاپوزیشن نے حکومت کو معیشت کی بہتری کیلئے کئی مشورے دئیے ۔ کانگریس نے پیر کو راجیہ سبھا میں کہا کہ ہندوستانی معیشت بڑے بحران میں ہے اور حکومت کو نوجوانوں کو روزگار مہیاکرانے کے قدم اٹھانے کے ساتھ ساتھ کھپت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدام کرنے چاہئیں۔ کانگریس کےرکن پارلیمنٹ پی چدمبرم نے ایوان میں مالی سال۲۱۔۲۰۲۰ءکے عام بجٹ پر بحث شروع کرتے ہوئے کہا کہ معیشت بڑے بحران میں ہے اور حکومت کے ’ڈاکٹر‘اسے اس بحران سے نکال نہیں پارہے ہیں۔
 انہوں نے کہاکہ ماہر اقتصادیات ہندوستانی معیشت کو ’آئی سی یو‘ میں بتارہے ہیں لیکن حکومت اسے آئی سی یو سے باہر کرسی پر بٹھاکر اس کا علاج کرنا چاہ رہی ہے۔صحیح اقتصادی انتظام نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئےماہرین سے صلاح مشورہ کرناچاہئے اور کھپت اور سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔نوجوانوں کو روزگار مہیاکراتے ہوئے عوام کے ہاتھ میں پیسہ دینا چاہیے۔
 کانگریس لیڈر نے کہا کہ نوٹ بندی اور اشیاء اور خدمات ٹیکس کو جلد بازی میں نافذ کرنا حکومت کی بھیانک غلطی ہے جس کا اثر معیشت پر نظر آرہا ہے۔اسی کا اثر ہے کہ اقتصادی شرح نمو میں مسلسل ۶؍ سہ  ماہی سے کمی ہورہی ہے۔اتنے لمبے وقت تک معیشت میں کمی پہلی بار واقع ہوئی ہے۔
 پی چدمبرم نے کہا کہ معیشت کا مسئلہ بنیادی ہے جبکہ حکومت قلیل مدتی اقدامات  میں لگی ہوئی ہے۔اقتصادی سروے میں معیشت کو صحیح سمت میں لے جانے کے اشارے دیئے ہیں لیکن عام بجٹ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اقتصادی سروے کی سوچ کو عام بجٹ میں نظرآنا چاہیے۔زراعت ،چھوٹی صنعتیں اور بڑی صنعتوں میں قرض لینے میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ کلیدی پیداوار کے زمرےمیں شامل خام تیل ،بجلی ،کان کنی ، کوئلہ،سیمنٹ ،ریفائنری اور فرٹیلائزرس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔صنعتی پیداوار کےانڈیکس(آئی آئی پی)میں کمی معیشت کے سامنے بڑے خطرے کا اشارہ دے رہی ہے۔بجلی پلانٹ۴۵؍ فیصد اور مینوفیکچرنگ کا شعبہ۷۰؍فیصد پیداوار کی صلاحیت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔بازار میں مانگ نہیں ہے۔لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے جس سے کھپت گھٹ رہی ہے۔مہنگائی اور خوردنی افراط زر کی شرحوں میں اضافہ ہورہاہے۔اس کا سیدھا مطلب ہےکہ ملک مسلسل غریب ہورہاہے۔
 انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ،سرکاری خسارہ ، مالیاتی خسارہ اور درآمدات اور برآمدات کی حالت کے اشارے بھی معیشت کی بری تصویر دکھارہے ہیں۔حکومت آنے والے سال میں الاٹمنٹ گھٹارہی ہے۔حالانکہ منصوبوں کے مطابق حکومت کو زیادہ سرمایہ مہیا کرانا ہوگا جبکہ حکومت کا ریوینیو مسلسل گھٹ رہا ہے۔حکومت کو اس حالت سے بچنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔
 ادھر لوک سبھا میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سپریہ سلے نے بجٹ کوبہت لمبا اور تھکادینے والا قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس میں دیئے گئے اعداد و شمار کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ پریوں کی کہانی جیسا ہے۔سپریہ سلے نے پیر کو بجٹ پر بحث میں کہا کہ حکومت معاشی سروے میں کچھ کہہ رہی ہے اور بجٹ میں کچھ اور ہے۔ بجٹ سے پتہ نہیں چل رہا ہے کہ اس کی کیا سمت ہے اوراس میں ایسی کوئی بات نظرنہیں آئی جو گرتی ہوئی معیشت کے لئے کوئی مؤثر قدم اٹھانے کی بات کہی گئی ہو۔انہوں نے کہاکہ ممبئی میں بلٹ ٹرین کی بات کی جارہی ہے لیکن اب تک ایک ایکڑ کی  اراضی بھی اس کیلئے تحویل میں نہیں لی گئی ہے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حکومت صرف پریوں کی کہانی سناکر لوگوں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ اس بجٹ میں حکومت کی کسی ایسی پالیسی کا پتہ نہیں چل رہا ہے جس سے معیشت کو رفتار مل سکے اور بے روزگاری کو کم کیا جاسکے۔
 بیجو جنتادل کے بھرتہری مہتاب نے کہاکہ حکومت کے اعلانات سے محسوس ہوا کہ بجٹ بہت امیدوں اور توقعات والا ہوگا لیکن ملک میں سرمایہ کاری کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے معیشت میں مسلسل گراوٹ درج کی جارہی ہے۔ بجٹ سے چھوٹی اور درمیانہ صنعتوں میں اصلاحاتی قدم اٹھانے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔بہوجن سماج پارٹی کے گریش چندر نے کہا کہ یہ بجٹ کسان، غریب اور دلت مخالف ہے۔ اس میں خواتین، دلتوں ، آدی واسیوں کی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ بجٹ میں حکومت نے کسانوں کے ساتھ دھوکہ دیا ہے۔ 
 کانگریس کی  پرنیت کور نےکسانوں کو فوڈ سبسیڈی کو ان کےبینک کھاتوں میں نقدی منتقل کرنے کے طور پر دیئےجانے کی وکالت کی اور وزیراعظم فصل بیمہ منصوبہ کو پنجاب کے کسانوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا پریمیم مرکز اور ریاستی حکومتوں کو۴۰:۶۰؍ کے تناسب میں برداشت کرناچاہئے اور معاوضے کی رقم گزشتہ برس کی فصل اور آمدنی کی بنیاد پر طے کی جانی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK