دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ کا اظہار تشویش، جسٹس ہاسبٹ سریش میموریل لیکچر میں سپریم کورٹ کی تنزلی کا حوالہ دیا،کہا کہ ا س کا آغاز ۲۰۱۴ء سے ہوگیاتھا
EPAPER
Updated: September 20, 2020, 9:02 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ کا اظہار تشویش، جسٹس ہاسبٹ سریش میموریل لیکچر میں سپریم کورٹ کی تنزلی کا حوالہ دیا،کہا کہ ا س کا آغاز ۲۰۱۴ء سے ہوگیاتھا
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے جمعہ کو جسٹس ہاسبٹ سریش میموریل لیکچر میں ہندوستانی جمہوریت میں آرہی گراوٹ پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہا ہے کہ ملک میں ہر وہ ادارہ اور ہر و انتظام جو حکومت کی جوابدہی طے کرنےکیلئے کیا گیا تھا، منصوبہ بند طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے۔ وہ ’’تنزلی کی طرف گامزن سپریم کورٹ: بھولی بسری آزادی اور مٹ چکے حقوق‘‘ کے عنوان پر آن لائن لیکچر دے رہے تھے۔
اپنی تقریر کو انہوں نے خاص طور سے عدلیہ میں آنے والی گراوٹ پر مرکوز رکھا۔ گزشتہ ۶؍ برسوں میں سیاسی طور پر حساس اور آئینی طورپر انتہائی اہمیت کے حامل معاملات سے سپریم کورٹ کے نمٹنے کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نےکہا ہے کہ ’’سپریم کورٹ کی یہ تنزلی اچانک اور اتفاقی نہیں ہے بلکہ ایک بڑی اور سوچ سمجھ کر تیار کی گئی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جسے عاملہ (حکومت) کی جانب سے تیار کیاگیا ہے تاکہ ریاست کے تمام شعبوں کو اس طرح قابو میں رکھا جائے جو اس کے سیاسی ایجنڈہ کیلئے فائدہ مند ہو۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سپریم کورٹ اکثریت پسندی کا مقابلہ کرنے والے کورٹ کی حیثیت سے خو د کو ثابت نہیں کرسکا۔ا ن کے مطابق’’میرا زور اکثریت پسندی کی طرف اس لئے ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں عدالتوں کے رول کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جمہوریت اپنا جواز اکثریتی رائے کی نمائندگی کےذریعہ حاصل کرتی ہے مگر اس جواز کی ایک قیمت ہےجو بلا شبہ اقلیتی گروپ چکاتے ہیں ، خاص طور سے وہ جو غیر مقبول ہیں یا شدید ناانصافی کا شکار ہیں اور مقننہ پر اثر انداز ہونے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اقلیتوں کو اکثریتیوں کے ظلم و جبر سے بچانے کا یہ اختیارہی عدالتی نظر ثانی کی بنیاد ہے جو عدالتوں کو یہ طاقت دیتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دیں جو آئین کے منافی ہو۔‘‘