Inquilab Logo

لیبیا میں امن کی خاطر بیرونی مداخلت اور ہتھیار سپلائی پر پا بندی ضروری

Updated: January 21, 2020, 2:24 PM IST | Agency | Berlin

برلن میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں عالمی برادری کے تمام بڑے لیڈران کے درمیان اتفاق، اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو غطریس کے مطابق جنگجو گروہوں پر ہر سمت سے دبائو ڈالنے کی ضرورت، انجیلا مرکل نے کہا ’’ طاقت کا استعمال کرنے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا‘‘ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی ثالثی سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا

برلن میں منعقدہ خصوصی اجلاس ۔ تصویر : پی ٹی آئی
برلن میں منعقدہ خصوصی اجلاس ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 برلن : جرمنی کے دارالحکومت برلن میں لیبیا کے تنازع پر ایک روزہ سربراہی اجلاس​ میں عالمی لیڈروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہاں کسی بھی صورت میں قیام امن کو یقینی بنایا جائے اور اس کیلئے بیرونی مداخلت اور فریقین کو اسلحے کی فراہمی پر ممانعت برقرار رکھی جائے گی۔خیال رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے سے دو حکومتیں قائم ہیں اور دونوں میں اقتدار کے حصول کیلئے خانہ جنگی جاری ہے۔مشرقی لیبیا پر فوجی جنرل خلیفہ حفتر حکمرانی کر رہے ہیں جب کہ دارالحکومت طرابلس میں وزیر اعظم فیاض السراج کی قیادت میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔
 مشرقی لیبیا کی فورس کے کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر نے طرابلس کا قبضہ حاصل کرنے کیلئے اپریل ۲۰۱۹ءمیں حملے شروع کئے تھے جس پر اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا کنٹرول برقرار ہے۔لیبیا کے مشرقی اور مغربی حصوں پر دونوں گروپوں کا اقتدار ان ملیشیاؤں کی مرہون منت ہے جو ان کی مدد کر رہی ہیں۔پچھلے مہینے اقوام متحدہ کے ایک سیکوریٹی ماہر نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ترکی، اردن، متحدہ عرب امارات اور ان کے اتحادی لیبیا کے جنگجو گروپوں کو باقاعدگی سے ہتھیار اور گولا بارود فراہم کر رہے ہیں۔
 طرابلس کی حکومت کو قطر، اٹلی اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔جرمنی کے دارالحکومت برلن میں اتوار کو لیبیا کے تنازع پر ایک روزہ سربراہی اجلاس ہوا جس میں یورپی یونین، اقوام متحدہ، افریقی یونین، عرب لیگ کے نمائندوں سمیت ۱۲؍ عالمی  لیڈر شریک ہوئے۔ تاہم اس میں لیبیا کےجنگجو گروہوں کی قیادت کرنے والے وزیر اعظم فیاض السراج اور جنرل خلیفہ حفتر موجود نہیں تھے۔اجلاس کی میزبان جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ   گفتگو میں اس بات پراتفاق ہوا ہے کہ فریقین کو اسلحے کی فراہمی پر ممانعت کو تسلیم کیا جائے جب کہ اس پابندی کا مزید سختی سے اطلاق کیا جائے۔ ماضی میں بھی ایسا کیا جاتا رہا ہے۔
 انجیلا مرکل نے مزید کہا کہ میرے خیال میں گزشتہ چند روز میں ثابت ہوا ہے کہ اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ طاقت کے استعمال سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔سمٹ کے شرکاء نے اتفاق کیا کہ لیبیا میں دو ہفتے قبل فریقین میں جنگ بندی کا عمل مزید پائیدار ہونا چاہئے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس کا کہنا تھا کہ لیبیا میں جنگجو گروہوں پر تمام اطراف سے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
 واضح رہے کہ لیبیا میں مختلف ممالک الگ الگ فریقین کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب یہ خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ لیبیا بھی کہیں مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام کی صورت اختیار نہ کر جائے۔
 اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اب سے پہلے تک لیبیا میں بیرونی مداخلت  کے ذریعے تنازع کو مزید شدید کیا جاتا رہا ہے۔ اس تنازع کی شدت میں اضافہ خطرناک ہو سکتا تھا۔سمٹ میں شریک ممالک کے  لیڈران نے اتفاق کیا کہ وہ لیبیا میں اپنے حامی فریقین کی فوجی استطاعت میں مزید اضافہ نہیں کریں گے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مختلف ممالک کب اور کیسے اپنے حامی فریقین کی موجودہ حمایت میں کمی لائیں گے۔فریقین کیلئے مختلف ممالک کی حمایت ختم ہونے کے حوالے سے جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ یہ جنگ بندی کیلئے سب سے بڑا سوال ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زور دیا کہ لیبیا میں  فریقین کو اقوام متحدہ کے ثالثی کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتے ہیں جبکہ یہ طریقہ بیرونی مداخلت سے ہونے والے تشدد سے بھی آزاد ہے۔مائیک پومپیو نے سوال اٹھایا کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فریقین کو اسلحہ فراہمی کی ممانعت کی نگرانی کتنے مؤثر انداز سے کی جا رہی ہے۔
 واضح رہے کہ لیبیا کی معیشت کا دار و مدار تیل کی فروخت پر ہے۔ دو ہفتے قبل طرابلس اور بن غازی کے درمیان واقع شہر سرت پر فوجی جنرل خلیفہ حفتر کی فورس نے قبضہ کر لیا تھا۔ گزشتہ روز لیبیا کی نیشنل آئل کارپوریشن نے اعلان کیا تھا کہ سرت پر قبضے کے بعد کمانڈر حفتر کی فورس نے دو پائپ لائن تباہ کر دی ہیں جس کی وجہ سے دو بڑی آئل فیلڈ بند کر دی گئی ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اس صورت حال کو انتہائی پریشان کن قرار دیا تھا۔
 واضح رہے کہ لیبیا گزشتہ ایک دہائی سے سیاسی اور معاشی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ ۲۰۱۱ء میں طویل عرصے تک لیبیا کے حکمران رہنے والے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا جب انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کئی  فوجی گروپوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی لڑائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی لیبیا میں ایک مستحکم حکومت کے قیام میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

libya Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK