Inquilab Logo

حکومت کی بے اعتنائی سے پریشان کسانوں کا’ جل سمادھی‘ لینے کا فیصلہ

Updated: November 23, 2022, 9:47 AM IST | kolhapure

سوابھیمان کسان سنگٹھنا نے پہلےہی متنبہ کر رکھا ہے کہ اگر کسانوں کو سویابین اور کپاس کے مناسب دام نہ دلوائے گئے تو ۲۴؍ نومبر کو ممبئی پہنچ کر بحر عرب میں ’جل سمادھی‘ لی جائے گی اور ریاست بھر میں احتجاج شروع کیا جائے گا۔ کسان لیڈروں کا ’جان جانے تک‘ احتجاج جاری رکھنے کا اعلان

Kisan leader Ravi Kant Topkar held a big rally in Beldana on November 6. (File Photo)
کسان لیڈر روی کانت توپکر نے ۶؍ نومبر کو بلڈانہ میں بڑی ریلی کی تھی۔( فائل فوٹو)

ریاست میں کسانوں کی خستہ حالی  کے سبب کسان تنظیموں کی ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ان تنظیموں نے بطور احتجاج بحر عرب میں جل سمادھی لینے کا اعلان کیا ہے  کسان تنظیم سوابھیمان شیتکری سنگٹھنا   نے اس کا اعلان گزشتہ دنوں بیڑ ضلع  میں   سویابین اور گنا کسانوں کے ایک مظاہرے کے دوران کر دیا تھا اب تنظیم کے لیڈر روی کانت توپکر  نے کہا ہے کہ حکومت ہم پر کتنا ہی دبائو کیوں نہ ڈالے  ہم جل سمادھی لے کر ہی رہیں گے۔ 
 یاد رہے کہ جل سمادھی لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پانی میں کھڑا رہا جائے اس وقت تک کہ پانی آپ کو بہا نہ لے جائے یا ڈبو نہ دے۔ عام طور پر کسان اور آدیواسی طبقہ اس طرح کے احتجاج کرتا ہے۔ کسانوںکو کہنا ہے کہ انہیں، ریاست میں گنا، کپاس اور سویابین کی صحیح قیمت نہیں مل ر ہی ہے ۔ حالانکہ انہوں نے اس تعلق سے کئی بار احتجاج کیا۔ اب انہوں نے طے کیا ہے کہ ۲۴؍ نومبر کو جل سمادھی لے لیں گے۔ 
  کسان لیڈر روی کانت توپکرکر کہنا ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ بازار میں سویابین  ۸۵۰۰؍ روپے فی کوئنٹلاور کپاس کے دام ۱۲۵۰۰؍ فی کوئنٹل پر قائم رہیں۔  انہوں نے کہا کہ اگرا یسا نہیں کیا گیا تو ۲۴؍ نومبر کو کسان ممبئی پہنچیں گے اور منترالیہ کے قریب بحر عرب میں جل سمادھی لیں گے۔  انہوں نے کہا ’’ حکومت ہم پر کتنا ہی دبائو ڈالے ہم کسانوں کے حقوق کی خاطر جل سمادھی لے رہیں گے۔‘‘  انہوں نے کہا ’’ اس احتجاج کے سبب اگر ہماری جان چلی  جائے تب بھی  ہمیں کوئی پروا نہیں ہوگی۔ یا د رہے کہ ریاست میں مناسب دام نہ ملنے کے سبب سویابین کے کسان کافی پریشان ہیں اور انہوں نے گزشتہ دنوں بیڑ ضلع میں گنا اور کپاس کے کسانوںکے ساتھ مل کر ایک بڑا جلسہ بھی کیا تھا جس میں سوابھیمان شیتکری سنگٹھنا  نے جل سمادھی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بھی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ 
 بلڈانہ پولیس کا نوٹس
 اس دوران بلڈانہ پولیس نے  روی کانت توپکر کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنا جل سمادھی والا احتجاج واپس لےلیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یاد رہے کہ ۶؍ نومبر کو بلڈانہ میں ہوئے احتجاج کے دوران روی کانت توپکر نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم ۲۴؍ نومبر سے پوری ریاست میں احتجاج کرے گی۔ ساتھ ہی ممبئی میں جل سمادھی لے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کے سبب ریاست کا ماحول خراب ہونےکا خدشہ ہے۔ یہ نوٹس روی کانت توپکر کے گھر رات ۱۲؍ بجے پہنچایا گیا۔ اس کی وجہ سے کسان کارکنان ناراض ہیں۔ 

مہاراشٹر میں گڑ کے دام گرتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کولہا پور میں گڑ کی پیداوار کرنے والے کسانوں نے  اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک بازار میں گڑ کے دام ۳۷؍ روپے کوئنٹل نہیں کئے جاتے تب تک وہ اپنے گڑ بازار میں نہیں اتاریں گے۔ اس تعلق سے ضلع انتظامیہ نے کسانوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اپنا احتجاج واپس لینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ پڑوسی ریاست کرناٹک سے گڑ منگوایا جا رہا  ہے اور اسے مقامی سطح پر کولہا پور کا گڑ کہہ کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ 
  اطلاع کے مطابق اس مہینے گڑ کی قیمتوں میں اس قدر گراوٹ آئی کہ کولہاپور میں گڑ کے کارخانے اپنی آخری سانسیں لینے لگے۔ گڑ کے دام ۳۰۰۰؍ روپے فی کوئنٹل تک آ گئے ہیں جبکہ کسانوں کا کہنا ہے کہ اتنے دام میں تو ان کی لاگت بھی نہیں نکل پائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ  اگر انہیں ۳۷۰۰؍ روپے فی کوئنٹل دام نہیں ملے تو  اس کاروبار کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔  کسانوں کی شکایت ہے کہ کولہاپور میں ایک وقت تھا کہ یہاں گڑ کے ۱۲۰۰؍ کارخانے موجود تھے جو خوب چلتے تھے۔ لیکن بازار کی خستہ صورتحال کے سبب یہ تعداد گرتے گرتے ۳۰۰؍ تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد ۱۸۰؍ ہوگئی ۔ اور اب ان کی تعداد انگلیوں پر گننے لائق ہو گئی ہے۔ اس وقت کولہا پور میں ۶۰۔۶۵؍ کارخانے ہیں۔ گڑ کی پیداوار کرنے والے ان گنے چنے کسانوں نے  اب متحدہ طور پر یہ فیصلہ  کیا ہے کہ جب تک انتظامیہ انہیں ۳۷۰۰؍ روپے فی کوئنٹل گڑ فروخت کرنے کا بندوبست نہیں کرتا وہ گڑ کا سودا نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے انتظامیہ کو اس بات کی بھی اطلاع دی کہ کولہاپور میں کرناٹک سے لایا ہوا گڑ فروخت کیا جا رہا ہے۔ اور کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ کولہاپور کا بنا ہوا ہے۔ یہ گاہکوں کے ساتھ دھوکہ ہے جبکہ کسانوں کی حق تلفی ہے۔ 
 منگل کو کسانوں نے انتظامیہ کو بتایا کہ کرناٹک میں گڑ ۳۱؍ سو روپے فی کوئنٹل  میں تیا رہو جاتا ہے ۔ اس پر کولہاپور کا لیبل لگا کر اسے گجرات اور دیگر ریاستوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ اس گورکھ دھندے کو بند کروائے۔ ضلع انتظامیہ نے کسانوں کو اس معاملے پر مناسب کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ 

kisan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK