Inquilab Logo

پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران نے جوہری افزودگی دوبارہ شروع کی

Updated: November 20, 2020, 9:57 AM IST | Agency | Washington

آئی ا ے ای اے کے مطابق ایران نے یورینم کی مقدار میں بہت زیادہ اضافہ نہیں کیا ہے لیکن نیوکلیئر معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے

Hassan Rouhani - Pic : INN
حسن روحانی ۔ تصویر : آئی این این

جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے اپنے ایک زیر زمین جوہری مرکز میں نصب سینٹریفوجز پرکام شروع کر دیا ہے۔تاہم  اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے باوجود وہاں افزودگی کی مجموعی صلاحیت میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ویانا میں بدھ کو ایک نیوز بریفنگ میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے بتایا کہ ۱۷۴؍ سینٹریفو جز کو ایران کی جوہری تنصیب نطنز منتقل کیا گیا ہے اور حال ہی میں ان پر یورینم کی افزودگی کا کام شروع کیا گیا ہے  ۔
 انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سینٹریفوجز کا استعمال اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو ایران نے ۲۰۱۵ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ کیا تھا، جسے مشترکہ جامع عمل کا منصوبہ یا جے سی او اے کا نام دیا گیا تھا۔ گروسی نے کہا کہ سینٹریفوجز کے استعمال سے یورینم کی افزودگی کی سطح میں مجموعی طور پر کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوا ہےلیکن  ایران پہلے ہی معاہدے کے تحت مقررہ  افزودہ یورینم کی حد کو کافی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ اگر عام زبان میں بات کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ افزودہ یورینم کی مقدار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ وہ پہلے ہی ایک مختلف جگہ پر یورینم کو افزودہ کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن بلاشبہ یہ ۲۰۱۵ءمیں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ آئی اے ای اے کے تفتیش کاروں کی جانب سے اس رپورٹ پر ایران سے وضاحت مانگی گئی تھی لیکن اس کا جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں جوہری توانائی کے رکن ممالک میں تقسیم کئے جانے والی ایک خفیہ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے  کہ ۲؍ نومبر نومبر کو ایران کے پاس کم افزودہ یورینم  کا ۹۲؍ ہزار ۴۴۲؍ کلوگرام ذخیرہ موجود تھا  جو ۲۵؍ اگست کی رپورٹ کردہ   مقددار  ۴۲؍ ہزار ۱۰۵؍سے زیادہ تھا۔ایران نے امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، چین اور روس کے ساتھ ۲۰۱۵ء میں جس معاہدے پر دستخط کئے تھے، اس کے تحت اسے ۸۲۰۲؍ کلوگرام افزودہ یورینم رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔آئی اے ای اے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران یورینم  کو ۴ء۵؍ فی صد تک افزودہ کر رہا ہے جو معاہدے میں مقرر کردہ سطح ۳ء۶۷؍ فی صد سے زیادہ ہے۔ایران نے اس وقت جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا کھلم کھلا اعلان کیا تھا جب ۲۰۱۸ءمیں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔

iran Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK