Inquilab Logo

سابق جج جسٹس نریمن کی وزیر قانون پر تنقید،کہا بلاوجہ تنازع کھڑا نہ کریں

Updated: January 29, 2023, 9:41 AM IST | new Delhi

جسٹس روہنٹن نریمن نے کرن رجیجو کو یاد دلایا کہ عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا اُن کا فرض ہے جبکہ نائب صدر کو تحمل برتنے کا مشورہ

Justice Rohanton F. Nariman
جسٹس روہنٹن ایف نریمن

 اعلیٰ عدالتوں میں تقرریوں کے لئے سپریم کورٹ کے کالجیم نظام پر مرکز کی طرف سے بڑھتے ہوئے حملوں کے درمیان سپریم کورٹ کے سابق  جج جسٹس روہنٹن فالی نریمن نے  ایک تقریب میں وزیر قانون کرن رجیجو پر شدید تنقید کی اور کہا کہ وہ بلاوجہ کا تنازع نہ کھڑا کریں بلکہ عدلیہ کی آزادی کا احترام کریں۔  یاد رہے کہ روہنٹن ایف نریمن خود اگست ۲۰۲۱ء  میں ریٹائرمنٹ سے قبل کالجیم کا حصہ تھے۔ عدلیہ پر وزیر قانون کے عوامی ریمارکس کو `تنقید قرار دیتے ہوئے جسٹس نریمن نے وزیر قانون کو یاد دلایا کہ عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا ان کا `فرض ہے، چاہے وہ `صحیح ہو یا غلط۔
  جسٹس آر ایف نریمن نے نائب صدر جگدیپ دھنکر پر بھی تنقید کی  جنہوں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اصول پر سوال اٹھایا ہے۔  جسٹس آر نریمن نے نائب صدر کا نام لئے بغیر کہا کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کالجیم کے ذریعہ تجویز کردہ ناموں پر مرکز کے  ٹال مٹول پر  انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کے لئے مہلک روش ہے۔ اسی لئے میرا مشورہ ہے کہ حکومت کو جواب دینے کے لئے ۳۰؍ دن کی مہلت  دی جائے  ورنہ سفارشات خود بخود منظورہو جائیں۔
  جسٹس آر نریمن نے کہا کہ ہم نے وزیر قانون کی تنقید دیکھی ہے لیکن میں وزیر قانون کو یقین دلاتا ہوں کہ آئین کے کچھ بنیادی آئینی اصول ہیں جو انہیں جاننے چاہئیں۔  ایک یہ کہ کم از کم پانچ  ججوں کی بنچ  جسے ہم آئینی بنچ کہتے ہیں، ایک بار جب وہ آئین کی تشریح کرلے تو آرٹیکل ۱۴۴؍ کے تحت ایک اتھاریٹی کے طور پر آپ کا فرض ہے کہ اس فیصلے پر عمل کریں۔ آپ چاہیں تو اس پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیںبھولنا چاہئے کہ آپ  اتھاریٹی کے طور پر اس فیصلہ کے ذمہ دار  ہیں

 یاد رہے کہ مرکزی حکومت ججوں کی تقرری میں بڑا کردار ادا کرنے کے  لئے عدلیہ پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے۔۱۹۹۳ءسے سپریم کورٹ کالجیم یا سینئر ترین ججوں کا پینل ہی  سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کا تقرر کرتا ہے۔ نائب صدر جگدیپ دھنکر نے بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اصول پر سوال اٹھاتے ہوئے مرکز کی حمایت کی تھی۔ اس پر جسٹس آر نریمن نے کہا کہ ۸۰ء کی دہائی سے لے کر آج تک عدلیہ کے ہاتھ میں یہ انتہائی اہم ہتھیار کئی بار استعمال ہوا ہے۔ جب بھی ایگزیکٹو نے آئین سے  ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کی ہے، عدلیہ نے چیک اینڈ بیلنس کا کام کیا ہے۔ آخری بار اس کا استعمال غالباً ۹۹؍یں ترمیم کو منسوخ کرنے کے  لئے کیا گیا تھا جو کہ نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ تھا۔ آزاد اور نڈر ججوں کے بغیر دنیا کا تصور کرتے ہوئےنریمن نے سختی سے متنبہ کیا کہ اگر یہ نظام تبدیل ہو گیا تو  ہم ایک ’نئے تاریک دور‘ میں داخل ہو جائیں گے۔ جسٹس نریمن کے مطابق  اگر آپ کے پاس آزاد اور نڈر جج نہیں ہیں تو  انصاف کو الوداع کہہ دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK