Inquilab Logo

عبادتگاہ قانون کیخلاف چوتھی پٹیشن داخل

Updated: May 29, 2022, 4:36 AM IST | new Delhi

سپریم کورٹ میں ایک ہفتے میں چوتھی عرضی کے ساتھ ہی اب تک ۷؍ عرضیاں داخل کی جاچکی ہیں، قانون کو اکثریتی فرقہ کیلئے نقصاندہ قرار دیا گیا

Numerous petitions have been filed in the Supreme Court against the law of worship
عبادتگاہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں یکے بعد دیگرے متعدد پٹیشن داخل کی گئی ہیں

ملک میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور یادگاروں پر جاری تنازع کے درمیان سپریم کورٹ میں۱۹۹۱ءکے اس قانون کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی عرضیاں دائر کی جارہی ہیں جس کے مطابق بابری مسجد کے علاوہ تمام مذہبی مقامات کی ۱۹۴۷ء والی صورت حال کو برقرار رکھا جائے۔ سپریم کورٹ میں تازہ عرضی ہندو مذہبی پیشوا دیوکی نندن ٹھاکر کی طرف سے دائر کی گئی ہے اور اس میں۱۹۹۱ءکے عبادت گاہ قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں اس قانون کے خلاف یہ چوتھی عرضی ہے جبکہ اب تک سپریم کورٹ میں ۷؍ عرضیاں داخل کی جاچکی ہیں جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ فرقہ پرست آنکھوں میں کھٹکنے والا یہ قانون ختم کرنے کی کوششیں کتنی زور و شور سے ہو رہی ہیں۔ 
 تازہ عرضی دائر کرتے ہوئے دیوکی نندن نے کہا کہ یہ قانون  ہندوئوںکو مذہبی حقوق سے محروم کرتا ہے۔ اس  لئے اس قانون کو تبدیل کیا جائے یا اسے ختم کر دیا جائے۔ اس معاملے میں اب تک سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر ۷؍عرضیاں دائر کی جاچکی ہیں۔دراصل ان عرضیوں کو داخل کرکے عبادت گاہ قانون (پلیسز آف ورشپ ایکٹ۱۹۹۱ء) کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ تمام مذہبی مقامات کو فرقہ پرستوں کے دعوئوں کے مطابق تبدیل کیا جا سکے۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیوں کی جھڑی لگا دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک ہفتے میں چوتھی عرضی دائر کی گئی ہے۔
 اس سے قبل اشوینی اپادھیائے، سبرامنیم سوامی اور جتیندرانند سرسوتی کی طرف سے بھی اسی طرح کی عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو وکیل اشونی اپادھیائے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مزکزی حکومت کو ایک نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی جواب داخل نہیں کیا۔بی جے پی لیڈر اور وکیل اشوینی اپادھیائے کی جس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب ۱۹۹۱ء میں عبادت گاہ قانون کو منظوری دی گئی تھی، اس وقت ایودھیا سے متعلق معاملہ پہلے سے ہی زیر سماعت تھے، لہٰذا اس معاملہ کو اس قانون کے دائرے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن کاشی اورمتھرا سمیت دیگر تمام مذہبی مقامات کے  لئے کہا گیا کہ ان کی صورت حال تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ ایسا قانون انصاف کا راستہ روکنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے عرضی میں کہا کہ کسی بھی معاملے کو عدالت میں لانا ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ لیکن عبادتگاہ  قانون شہریوں کو اس حق سے محروم کرتا ہے۔ اس لئے اسے فوری طور پر ختم کیا جائے اور ہندوئوں کو ان کی عبادتگاہیں واپس کی جائیں۔ 
۱۰۰؍ سال پرانی تمام مساجد کے سروے کا مطالبہ
  ملک بھر میں  جاری مندرمسجد تنازع کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کی ۱۰۰؍ سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرایا جائے۔ اس حوالہ سے ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ یا کسی دوسرے ادارے کو حکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔  یہ عرضی  دہلی این سی آر کے ایڈوکیٹ شوبھم اوستھی اور سپترشی مشرا نے ایڈوکیٹ وویک نارائن شرما کے توسط سے یہ عرضی دائر کی ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK