Inquilab Logo

ریپبلک ٹی وی کی خبروں پر ہائی کورٹ برہم، سخت سرزنش کی

Updated: October 22, 2020, 4:45 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai

سوال کیا کہ ’’اگر آپ ہی تفتیش کار،وکیل اور منصف بن جائیں گے تو پھرہماری کیا  ضرورت ہے؟‘‘ سشانت سنگھ راجپوت کیس میں اپنی خبروں کو ’’تفتیشی صحافت‘‘ کانام دینے پر بھی کورٹ نے باز پرس کی ، کہا کہ ’’تفتیش کرنا چاہتے تھے تو ضابطہ فوجداری پر ایک نظر ڈال لیتے...کیا عوام سے یہ پوچھنا کہ کسے گرفتار کیا جانا چاہئے تفتیشی صحافت ہے؟‘‘

Deepa and Kulkarni
چیف جسٹس دیپانکر دتّا جسٹس جی ایس کلکرنی

سشانت سنگھ راجپوت معاملے میں  میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ  اور اس کے رویے کے خلاف داخل کی گئی پٹیشن پر سماعت کے دوران بدھ کو بامبے ہائی کورٹ نے  ارنب گوسوامی  کے نیوز چینل  ریپبلک ٹی   وی پر سخت برہمی کااظہار کیا۔  ’’میڈیا ٹرائل‘‘ پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے   اس کا دفاع کرنے پر عدالت نے ریپبلک ٹی وی کے وکیل مالویکا ترویدی سے پوچھا کہ ’’اگر آپ ہی تفتیش کار، وکیل اور منصف بن جائیں گے تو پھر  ہماری کیا ضرورت ہے؟ہم یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘  معاملے کی شنوائی  بامبے ہائی کورٹ کے  چیف جسٹس  دیپانکر دتّا اور جسٹس جی ایس کلکرنی کر رہے تھے۔
 شنوائی کے دوران ریپبلک ٹی وی کے وکیل نے سشانت سنگھ معاملے میں چینل کی غیر ذمہ دارانہ  رپورٹنگ کو تفتیشی صحافت قراردیا اور  دعویٰ کیا کہ ان کا چینل ’’تفتیشی صحافت‘‘ اور جانچ کی  خامیوں کی نشاندہی کررہاتھا۔ ترویدی نے  مزید کہا کہ کورٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میڈیا تفتیش کی خامیوں   کی نشاندہی   یا حقیقت کو  بیان نہیں کرسکتا۔ ا س پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے دورکنی بنچ نے کہا کہ ’’اگر آپ سچائی کو بے نقاب کرنے میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں تو ضابطہ فوجداری کو ایک بار دیکھ لیا ہوتا، قانون سے لاعلمی کوئی دفاع نہیں ہے۔‘‘
  بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس جی ایس کلکرنی نے ریپبلک ٹی وی کی وکیل مالویکا ترویدی سے سوال کیا کہ ’’یہ کون طے کرے گا کہ تفتیش میں خامی ہے یا نہیں ؟ کیا ٹی وی کا کام تفتیش میں خامی نکالنا ہے ؟ کیا ذرائع ابلاغ کو خبریں نشر کرتے وقت سچائی کو پیش کرنے کے ساتھ یہ دیکھنا ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا ر ہے ہیں یا نہیں ؟‘‘ کورٹ نے ’’تفتیشی صحافت‘‘ پر وکیل سے  اس بات کا بھی جواب طلب کیا کہ ’’ریپبلک ٹی وی نے ’ ریا کو گرفتار کرو‘ کے نام سے جو مہم چلائی  اوراس پر  عوام کی رائے    مانگی تو کیا یہ بھی تفتیشی صحافت کا حصہ تھا؟‘‘کورٹ نے سوال کیا کہ کیا عوام سے یہ پوچھنا کہ کسے گرفتارکیا جائے تفتیشی صحافت ہے؟
   ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ  ’’ ایک اداکار کی خود کشی ، یا خود کشی پر آمادہ ہونے کی تفتیش جو ابھی جاری ہے ، کو قتل قرار دینا کیا تفتیشی صحافت کہلاتی ہے ؟‘‘ کورٹ نے چینل کو متنبہ کیا کہ ’’ضابطہ فوجداری کے تحت تفتیش کے اختیارات پولیس کو دیئے  گئے ہیں نہ کہ کسی چینل یا عام آدمی کو ۔‘‘
  ریپبلک ٹی وی نے اپنی رپورٹنگ کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں کئی خامیاں اور کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے یہ معاملہ سی بی آئی کے حوالے کیاگیا  اوراسی وجہ  سے سشانت کے اہل خانہ نے بھی سی بی آئی سے تفتیش کی مانگ  اور انصاف دلانے کی اپیل کی تھی۔  انہوں نے دعویٰ کیا کہ  اسی طرح ری پبلک ٹی وی نے شینا بورا کیس اور سنندا پشکر کیس میں بھی سچائی کو  بے نقاب کیاگیاتھا۔وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو بھی رپورٹنگ کی گئی   وہ صحافتی دائرے میں رہ کر کی گئی ہے ۔
   اس پر کورٹ نے چینل کی غیر ذمہ داریوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کیا تمہیں  خود کشی کی رپورٹنگ کی گائیڈ لائن معلوم ہیں؟ کیا  اس معاملہ میں  خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنا چاہئے ، کیا  ٹی وی کسی کی موت کا احترام کرنا نہیں جانتی؟‘‘

 میڈیا کو اس کی حد یاد دلائی، مرکز کو بھی ہدایت

 کورٹ نے دوران سماعت واضح کیا کہ وہ نہیں چاہتا کہ میڈیا کی آواز کو دبایا جائے، وہ صر ف اس بات کیلئے فکرمند ہے کہ خبرنگاری کے دوران ’’پروگرام کوڈ‘‘ کی پاسداری کی جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ’’ہم صرف اس چھوٹے سے نکتے پر بات کررہےہیں کہ  پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں؟آپ کی رپورٹنگ طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے یا نہیں۔‘‘کورٹ نے نیوز چینل کو متنبہ کیا کہ ’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنی حدود معلوم ہوں وار ان حدود میں رہ کر آپ جو چاہے وہ کریں مگر حدکو پار نہ کریں۔‘‘ کورٹ نے سالیسٹر جنرل انل سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ سے بھی کہیں کہ اس طرح کی رپورٹنگ پرسخت کارروائی کرنے اور اس پر قدغن لگانے کیلئے  لائحہ عمل  ترجیحی بنیادوں پر تیار کیا جائے۔  انل سنگھ نے بتایا کہ منسٹری بھی اداکار سے متعلق کی جانے والی رپورٹنگ سے نالاں ہے اور آئی ٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK