Inquilab Logo

عدالت کا فیصلہ آنے تک کرناٹک میں حجاب پر پابندی رہے گی

Updated: October 15, 2022, 11:34 AM IST | Agency | Bengaluru

ریاست کے وزیر داخلہ نے چیف جسٹس کی جانب سے فیصلہ آنے تک حجاب پر پابندی عائد رکھنے کا اعلان کیا تو مسلم تنظیموں نے جسٹس ہمانشو دھولیا کے فیصلے کی رو سے اس پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ کیا

Right now, the struggle of these girls has achieved fair success .Picture:INN
ابھی ان بچیوں کی جدوجہد کو انصف کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تصویر:آئی این این

 ایک روز قبل سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بینچ نے حجاب کے معاملے پر داخل کی گئی عرضداشت پر اختلافی فیصلہ سنایا جہاں بینچ کے رکن جسٹس ہیمنت گپتا نے اسے یونیفارم کا معاملہ کہہ کر طالبات کی عرضداشت کو مسترد کر دیا وہیں  بینچ کے دوسرے رکن جسٹس سدھانشو دھولیا نے حجاب کو لڑکیوں کے ذاتی اختیار کا معاملہ قرار دیا اور انہیں حجاب پہننے کی اجازت دینےکا حکم سنایا ۔ چونکہ اس بینچ میں ۲؍ ہی رکن تھے اس لئے معاملہ برابری کا رہا۔ لہٰذا کرناٹک کے اسکولوں  میں لڑکیوں کونہ تو حجاب پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے ، نہ ہی  انہیں حجاب پہننےپر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن کرناٹک حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جب تک عدالت کا واضح فیصلہ نہیں آجاتا تب تک ریاست کے اسکولوں میں لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 
  واضح رہے کہ اس معاملے کو اب چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا گیا ہے ۔ اب ان کے فیصلے کے مطابق ہی کرناٹک کی لڑکیوں کو  حجاب کی اجازت ملے گی یا پابندی کا سامنا کرنا ہوگا۔ لیکن کرناٹک حکومت ایک بار پھر اسے اپنے نظریے سے دیکھ رہی ہے۔    جمعہ کو ریاست کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ ’’ ایسے وقت میں جب دیا بھر میں برقع کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے ( ان کا اشارہ ایران کی طرف تھا) ہمیں سپریم کورٹ سے ایک بہتر فیصلے کی امید تھی جو تعلیمی نظام  میں  یکسانیت لاتا لیکن ایک منقسم فیصلہ آیا۔‘‘  ناگیش کے مطابق اس معاملے کو اعلیٰ بینچ کے سامنے بھیج دیا گیا ہے اور کرناٹک حکومت اس بینچ کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔  انہوں نے کہا’’ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ قابل قبول رہے گا( جس  میں حجاب پر پابندی کی اجازت دی گئی ہے)  ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں کرناٹک کے تعلیمی آرڈننس کے مطابق کسی بھی مذہبی علامت کے استعمال کی جازت نہیں ہوگی۔  اسلئے ہمارے اسکول اور کالج اسی  کے مطابق چلیں گے اور بچوں کو اس کی پابندی کرتے ہوئے اسکول آنا ہوگا۔‘‘   ادھر کرناٹک کے وزیر داخلہ  نے بھی وزیرتعلیم کی باتوں کی توثیق کی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ میں نے میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کو دیکھا ہے یہ ایک معلق فیصلہ ہے۔ اس معاملے کو چیف جسٹس کی بینچ کے پاس بھیجا گیا ہے اور  کرناٹک حکومت  اس بینچ کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔ 
  مسلم تنظیموں کا حجاب پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ
  ادھر مسلم تنظیم نے جسٹس ہمانشو دھولیا کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اب کرناٹک حکومت ریاست میں حجاب پر عائد پابندی کو واپس لے۔مسلم پرسنل لاء بورڈکے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف رحمانی نے ایک روز قبل کہا تھا کہ کرناٹک حکومت حجاب  پر عائد پابندی کا حکم واپس لے تاکہ یہ پورا تنازع ختم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جو لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ پیدا کرے۔  ادھر مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا کلب جواد نے کہا کہ’ ’ہمیں  امید ہے کہ سپریم کورٹ مسلم پرسنل لا اور مسلم خواتین کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرے گا۔ ہمارا آئین مسلم خواتین کو باوقار اور بااختیار زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے اور یہ مسلم خواتین کی شناخت ہے۔حجاب خواتین کی آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے،اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بڑی مثال خود میری بیٹی ہے جس نے حجاب پہن کر لکھنؤ یونیورسٹی سے ۸؍ گولڈ میڈل جیتے ہیں۔  یہ مثال ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ طعنے دیتے ہیں کہ حجاب تعلیم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔‘‘مولانا کلاب جواد نے کہا کہ جو لڑکیاں حجاب پہننا چاہتی ہیں، یہ ان کی پسند اور آزادی کا معاملہ ہے۔ اس لئے حجاب پر سیاست کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔مولانا نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملے کو صحیح تاریخ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ یہ تنازع اتنا بڑھ گیا ہے۔   ان کے علاوہ  جمعیۃعلماء ہند  کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئینی بنچ ا س اہم مسئلہ پر سماعت کرکے مسلمانوں بالخصوص ان مسلم بچیوں کو راحت دے گی جو اپنی مذہبی شناخت کی حفاظت کرتے ہوئے حجاب پہن کراسکول وکالج میں پڑھائی کرنا چاہتی ہیں۔ مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کافیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں تھا۔کیونکہ اسلام میںفرض  اور واجب احکامات پر عمل ضروری ہے اور ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے، اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب کا مستحق ہوتاہے۔اس لئے صرف اس بنیاد پر اس کو ضروری مذہبی عمل قرار نہیں دیناغلط ہے۔  واضح رہے کہ کرناٹک میں اس سال کے شروع میں حجاب کے تعلق سے اس وقت تنازع شروع ہو گیا جب اوڈیپی کے ایک اسکول نے ۶؍ لڑکیوں کو اس  لئے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا کہ انہوں نے حجاب پہن رکھاتھا۔  وہ بچیاں اسکول کے زینے پر بیٹھ کر پڑھائی کرنے لگی ۔ ان کی یہ تصویر وائرل ہوئی تو معاملہ سرخیوں میں آیا۔ لیکن ہندوتواوادی تنظیموں نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کیلئے  اسکولی لڑکوں میں بھگوا مفلر بانٹنے شروع کئے۔ اس کے بعد یہ لڑکے مفلر گلے میں ڈالے مسلم لڑکیوں کو جبراً اسکول میں داخل ہونے سے روکنے لگے۔ اس پر چند لڑکیوں نے عدالت کا رخ کیا اور اسکول کے خلاف مقدمہ دائر کیا لیکن کرناٹک حکومت نے راتوں رات قانون منظور کرکے   حجاب پر مکمل پابندی لگادی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK