مرکز کو قانون پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت دی، تب تک اس ’سیاہ‘ قانون کے تحت کوئی کیس درج نہیں ہو گا، اس قانون کے تحت گرفتار افراد کو بڑی راحت، ضمانت مل سکے گی
EPAPER
Updated: May 12, 2022, 2:10 AM IST | new Delhi
مرکز کو قانون پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت دی، تب تک اس ’سیاہ‘ قانون کے تحت کوئی کیس درج نہیں ہو گا، اس قانون کے تحت گرفتار افراد کو بڑی راحت، ضمانت مل سکے گی
سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے ملک سے غداری کے قانون کو معطل کردیا اورمرکزی اور ریاستی حکومتوں کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ۱۲۴۔ اے کے تحت ایف آئی آر درج نہ کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس کی جرأت
چیف جسٹس این وی رامنا جو ویسے بھی مودی سرکار کی کارروائیوں کے سخت ناقد ہیں ، نے عدالتی آزادی اور قوانین کے معاملے میں عدلیہ کی بالادستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’سیاہ‘ قانون کو معطل کرنے کا حکم جاری کردیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے غداری کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے بعد اپنے عبوری حکم میں کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ ۱۲۴۔اےکے تحت اب تک کی گئی تمام کارروائیاں ملتوی کی جاتی ہیں۔بنچ نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت جیل میں قید افراد راحت اور ضمانت کے لئے متعلقہ عدالتوں سے رجوع بھی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور کئی دلائل دئیے لیکن بنچ نے ان کی ایک نہ سنی اور اس ’سیاہ‘ قانون کو معطل کرکے ہی دم لیا۔
مرکز کو قانون پر دوبارہ غور کرنے کی ہدایت
بنچ نے اس قانون کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے غداری کے قانون پر دوبارہ غور کرنے کو بھی کہا ہے۔ بنچ نے واضح کیا کہ جب تک ملک سے غداری قانون پر نظر ثانی نہیں ہوتی، اس دفعہ کے تحت کوئی مقدمہ درج نہیں ہو گا یا کسی بھی قسم کی تفتیش نہیں کی جائے گی۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔ بنچ نےگزشتہ روز ہی اپنے ارادے ظاہر کردئیے تھے جب اس نے مرکز سے اس معاملے میں جواب طلب کیا تھا ۔
درخواستیں کن کی تھیں؟
سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، سابق میجر جنرل ایس جی وومبٹکیرے، ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا، صحافی انیل چامڑیا اور دیگر نے داخل کی تھی اورغداری کے قانون کے آئینی جواز کو چیلنج کیا تھا۔ سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے بھی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ غداری قانون آئین کے آرٹیکل ۱۴؍اور۱۹؍کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس لئے اسے فوری طور پر رد کردیا جانا چاہئے۔ ویسے بھی یہ قانون انگریزوں کے دور میں بنایا گیا تھا اور اس وقت یہ مجاہدین آزادی کے خلاف استعمال کیا جاتا تھالیکن آزاد ہندوستان میں اس کا کوئی جواز نہیں رہ گیا تھا ۔ ارون شوری کے مطابق بلکہ اس قانون کے غلط اور مجرمانہ استعمال کی شکایتیں زیادہ عام ہو گئی تھیں ۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اسے رد کردیا جائے۔
تشار مہتا کی کوشش
سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس قانون کو معطل ہونے سے بچانے کے لئے کئی پینترے اپنائے اور کئی دلیلیں دیں ۔ انہوں نے کہا کہ سنگین جرائم کو درج ہونے سے نہیں روکا جا سکتا جبکہ کسی قانون کے اثر کو کم کرنا درست طریقہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ایسے معاملات میں تفتیش کے لئے ایک ذمہ دار افسر ہونا چا ہئے اور اس کا اطمینان عدالتی نظرثانی سے مشروط ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایس پی رینک کے افسر کو غداری کے مقدمات درج کرنے کا ذمہ دار بنایا جا سکتا ہے۔تشار مہتا نے مزید کہا کہ ہمیں ہر غداری سے متعلق کیس کی سنگینی کا علم نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کا تعلق منی لانڈرنگ یا دہشت گردی سےبھی ہے۔ ایسے میں اس قانون کی معطلی انہیں فائدہ پہنچائے گی۔تشار مہتا کے مطابق بہت سے زیر التوا مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں اور اس معاملے میں ہمیں عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہئے کہ وہ درست فیصلہ کریں گی۔جب چیف جسٹس اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو انہوں نے کہا کہ آئینی بنچ کے ذریعہ غداری کی دفعات کو برقرار رکھنے کے حکم پر روک لگانے کے لئے کوئی حکم صادر کرنا صحیح طریقہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے قبل کی سماعتوں میںعرضی گزاروں کی طرف سے بحث کرتے ہوئے کپل سبل نے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ غداری کے قانون کو فوری طور پر معطل کرنے کی ضرورت ہے۔اس تعلق سے ریاستوں کو ہدایات دی جاسکتی ہیں۔