Inquilab Logo

ہانگ کانگ کے باشندے’ ایک ملک دو نظام‘ کی تھیوری چاہتے ہیں

Updated: July 18, 2020, 3:28 AM IST | Washington

ان دنوں ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے نافذ کردہ نئے سیکوریٹی قانون کے چرچے جاری ہیں جس کی وجہ سے حال ہی میں امریکہ نےبعض چینی حکام پر پابندی عائد کی ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ان دنوں ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے نافذ کردہ نئے سیکوریٹی قانون کے چرچے جاری ہیں جس کی وجہ سے حال ہی میں امریکہ نےبعض چینی حکام پر پابندی عائد کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ قانون کیا ہے اور ہانگ کانگ کا خصوصی درجہ کسے کہتے ہیں ؟ دراصل ہانگ کانگ کوئی ڈیڑھ سو سال تک برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ ۱۹۹۷ء میں برطانیہ نے اسے چین کے حوالے کیا جس کیلئے اس کئی شرطیں عائد کی تھیں ۔ اس کی بنیادی تھیوری تھی ’ ون کنٹری ٹو سسٹم‘یعنی ’ ایک ملک دو نظام‘ اس کی رو سےہانگ کانگ چینی حکومت کے تابع تو تھا لیکن اس کے وہاں اپنا ایک نظام تھا ۔اس کی اپنی ایک حکومت تھی۔ 
  لیکن گزشتہ دنوں چین نے ایک نیا قانون منظور کرکے اسے ہانگ کانگ پر نافذ کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہانگ کانگ کے شہریوں کے کئی حقوق سلب ہو گئے ہیں ۔ یہ قانون چینی حکومت سے اختلاف رائے کو ایک جرم قرار دیتا ہے۔مذکورہ قانون کے مطابق جرائم کا مطلب دہشت گردی، تخریب کاری، علاحدگی پسندی اور بیرونی طاقتوں سے ملی بھگت کرنا ہے۔اس قانون کے تحت بیجنگ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں ایک سیکوریٹی فورس بنائے اور اسے قومی سلامتی کے معاملات کے مقدموں کی پیروی کی غرض سے ججوں کی تعیناتی کرنے کا بھی اختیار ہو گا۔
 تقریباً ڈیڑھ سو سال کے برطانوی نو آبادیاتی کنٹرول کے اختتام پر برطانیہ اور چین کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ ۱۹۹۷ءسے سے ۲۰۴۷ءتک کی پچاس سالہ مدت میں ہانگ کانگ میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام چلتا رہے گا۔معاہدے میں شامل تھا کہ ہانگ کانگ کے شہری ایسے انداز سے ہی زندگی گزارتے رہیں گے جیسے وہ برطانوی دور سے گزارتے چلے آ رہے ہیں ۔لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں چین جیسے جیسے ایک بڑی اقتصادی قوت کی حیثیت سے اُبھرنے لگا اس نے ہانگ کانگ کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔اگرچہ چین کے دوسرے حصوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ پر انتظامی یا حکومتی عمل داری کا کنٹرول نہیں رکھتی لیکن چین کی طرف سے ہانگ کانگ کے شہریوں پر اپنے قوانین کو نافذ کرنے کی کوششوں نے ہانگ کانگ کے باشندوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ہانگ کانگ کے شہری خصوصاً نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جمہوری طرز حیات اور چین کے سخت گیر کنٹرول کے تحت زندگی گزارنے میں ایک نمایاں فرق اور تضاد ہے۔
 چین کا حصہ ہونے کے باوجود ایک آزاد خطے کے طور پر ہانگ کانگ کے اختیارات کا منبع دو دستاویزات ہیں ۔ اول ۱۹۸۴ء کا چین اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ جس کے تحت ہانگ کانگ خود مختار ہونے کے باوجود چین کا حصہ رہے گا۔ دوسرا ہانگ کانگ کا بنیادی قانون ہے جو اس کے نظام اور اس کے شہریوں کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ان دونوں دستاویزات کی رو سے ہانگ کانگ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ کچھ معاملات میں خارجی تعلقات استوار کر سکتا ہے جن میں تجارت، مواصلات، سیاحت اور ثقافت شامل ہیں لیکن چین کو دفاع اور سفارت کاری کے معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔مزید یہ کہ بیجنگ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہانگ کانگ کے بنیادی قانون کی اپنے قانون کے مطابق تشریح کر سکتا ہے اور اسی وجہ سے چین ہانگ کانگ پر اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اس سال بیجنگ نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک ملک دو نظام کو سرے سے ختم کرے جس سے ہانگ کانگ کے باشندوں کی آزادیاں سلب ہونے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔
 ہانگ کانگ میں جاری احتجاج کا سلسلہ ۲۰۱۹ء میں شروع ہوا جب قانون سازی کی ایک تجویز سامنے آئی جس میں ہانگ کانگ سے ملزمین کو ٹرائل کے لئے چین بھیجے جانے کی سفارش کی گئی تھی۔جمہوریت کے حامیوں نے اس قانون کو ہانگ کانگ کا اختتام قرار دیا اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔جب یہ احتجاج چین کے قابو میں نہ رہے تو اس نے نیا سیکوریٹی قانون پیش کیا جس کی رو سے اب زیادہ تر معاملات میں ہانگ کانگ کے شہریوں پر ان کے قانون کے مطابق چینی قانون کا اطلاق ہوگا۔ اس طرح اب وہ مکمل طور پر چین کے تابع ہو گئے ہیں جو انہیں منظور نہیں ہے۔ فی الحال دنیا بھر میں اس قانون کی مخالفت ہوئی ہے لیکن چین اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK